يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ ۖ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ ۖ وَصَدٌّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ وَكُفْرٌ بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِندَ اللَّهِ ۚ وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ۗ وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّىٰ يَرُدُّوكُمْ عَن دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا ۚ وَمَن يَرْتَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ وَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
لوگ آپ سے حرمت والے مہینوں میں لڑائی کی بابت سوال کرتے ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ ان میں لڑائی کرنا سخت گناہ ہے لیکن اللہ کی راہ سے روکنا اس کے ساتھ کفر کرنا اور مسجد حرام سے روکنا اور وہاں کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا، اللہ کے نزدیک اس سے بھی بڑا گناہ ہے فتنہ قتل سے بھی بڑا گناہ ہے (١) یہ لوگ تم سے لڑائی بھڑائی کرتے ہی رہیں گے یہاں تک کہ اگر ان سے ہو سکے تو تمہیں تمہارے دین سے مرتد کردیں (٢) اور تم میں سے جو لوگ اپنے دین سے پلٹ جائیں اسی کفر کی حالت میں مریں، ان کے اعمال دنیاوی اور اخروی سب غارت ہوجائیں گے۔ یہ لوگ جہنمی ہونگے اور ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے (٣)۔
[٢٨٦]حرام مہینوں میں لڑائی :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آٹھ آدمیوں پر مشتمل ایک دستہ جمادی الثانی ٢ ھ کے آخر میں نخلہ کی طرف بھیجا (جو مکہ اور طائف کے درمیان ایک مقام ہے) تاکہ کفار مکہ کی نقل و حرکت کے متعلق معلومات حاصل کرے۔ کیونکہ ان کی طرف سے مدینہ پر چڑھائی کا ہر آن خطرہ موجود تھا اس دستہ کو کفار کا ایک تجارتی قافلہ ملا۔ جس پر انہوں نے حملہ کردیا اور ایک آدمی کو قتل کردیا اور باقی لوگوں کو گرفتار کر کے مال سمیت مدینہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے آئے جس کا آپ کو افسوس ہوا۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف معلومات حاصل کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ لڑنے کے لیے نہیں بھیجا تھا اور جس دن یہ لڑائی کا واقعہ ہوا اس دن مسلمانوں کے خیال کے مطابق تو ٣٠ جمادی الثانی تھا مگر حقیقتاً وہ دن یکم رجب ٢ ھ تھا۔ اب کفار مکہ اور یہود اور دوسرے اسلام دشمن لوگوں نے ایک طوفان کھڑا کردیا کہ دیکھو کہ یہ لوگ جو بڑے اللہ والے بنتے ہیں۔ ماہ حرام میں بھی خونریزی سے نہیں چوکتے۔ اسی پروپیگنڈہ کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ماہ حرام میں لڑنا فی الواقع بڑا گناہ ہے، مگر جو کام تم کر رہے ہو اور کرتے رہے ہو وہ تو اس گناہ سے بھی شدید جرائم ہیں۔ تم اسلام کی راہ میں روڑے اٹکاتے اور مسلمانوں کو ایذائیں دیتے ہو۔ اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہو۔ مسلمانوں کے مسجد میں داخلہ پر پابندیاں لگا رکھی ہیں اور تم نے مسلمانوں پر عرصہ حیات اس قدر تنگ کردیا کہ وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر یہاں سے نکل جانے پر مجبور ہوگئے۔ یہ سب جرائم ماہ حرام میں لڑائی کرنے سے بڑے جرائم ہیں۔ علاوہ ازیں جو فتنہ انگیزی کی مہم تم نے چلا رکھی ہے وہ تو قتل سے کئی گنا بڑا جرم ہے (یاد رہے کہ فتنہ سے یہاں مراد ایسی ہر قسم کی مزاحمت ہے جو ان لوگوں نے اسلام کی راہ روکنے کے لیے اختیار کر رکھی تھی) تمہیں اپنی آنکھ کا تو شہتیر بھی نظر نہیں آتا، اور مسلمانوں سے اگر غلط فہمی کی بنا پر یہ لڑائی ہوگئی تو تم نے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے۔ [٢٨٧] یعنی ان معاندین اسلام کے نزدیک تمہارا اصل جرم یہ نہیں کہ تم نے ماہ حرام میں لڑائی کی ہے بلکہ یہ ہے کہ تم مسلمان کیوں ہوئے اور اب تک کیوں اس پر قائم ہو اور اس وقت تک مجرم ہی رہو گے جب تک یہ دین چھوڑ نہ دو اور حقیقتاً وہ یہی کچھ چاہتے ہیں، یہ تمہارے بدترین دشمن ہیں۔ لہذا ان سے ہشیار رہو۔ [٢٨٨] یعنی جس طرح اسلام لانے سے سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح اسلام سے پھر جانے سے پہلے سے کی ہوئی تمام نیکیاں بھی برباد ہوجاتی ہیں۔ الا یہ کہ پھر توبہ کر کے مسلمان ہوجائے اور جب نیکیاں برباد ہوگئیں تو باقی صرف گناہ ہی گناہ ہوں گے، جس کا خمیازہ انہیں دائمی عذاب جہنم کی صورت میں بھگتنا پڑے گا۔