كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
تم پر جہاد فرض کیا گیا گو وہ تمہیں دشوار معلوم ہو، ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو بری جانو اور دراصل وہی تمہارے لئے بھلی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو اچھی سمجھو، حالانکہ وہ تمہارے لئے بری ہو حقیقی علم اللہ ہی کو ہے، تم محض بے خبر ہو (١)۔
[٢٨٥]جہاد کےفوائداوراہمیت : مکی دور میں بعض جوشیلے مسلمان جہاد کی اجازت مانگتے رہے مگر انہیں جہاد کی بجائے صبر کی تلقین کی جاتی رہی اور یہاں مدینہ میں آ کر جب اللہ تعالیٰ نے اس کی اجازت دی اور جہاد فرض کیا گیا تو بعض مسلمانوں نے اسے دشوار سمجھا۔ کیونکہ ہر معاشرہ میں تمام آدمی ایک ہی جیسے نہیں ہوتے، بعض جوشیلے، دلیر اور جوان بہت ہوتے ہیں تو بعض بوڑھے کمزور اور کم ہمت بھی ہوتے ہیں۔ یہ خطاب اسی دوسری قسم کے لوگوں سے ہے اور انہیں سمجھایا جا رہا ہے کہ جو چیز تمہیں بری معلوم ہوتی ہے، ہوسکتا ہے وہ فی الحقیقت بری نہ ہو، بلکہ تمہارے حق میں بہت مفید ہو اور اس کے برعکس بھی معاملہ ہوسکتا ہے اور بالخصوص یہ بات جہاد کے سلسلہ میں اس لیے کہی گئی کہ قتال سے ہر انسان کی طبیعت طبعاً نفرت کرتی ہے کیونکہ زندگی سے پیار ہر جاندار کی فطرت میں طبعاً داخل ہے اور بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جہاد میں جان و مال کا نقصان ہوگا۔ حالانکہ یہی جہاد کسی قوم کی روح رواں ہوتی ہے۔ شہید کی موت قوم کی حیات ہے۔ اسی لیے کتاب و سنت میں جہاد کو بہت افضل عمل قرار دیا گیا ہے اور بعض لوگ تو اسے اس قدر اہمیت دیتے ہیں کہ جہاد کو فرض کفایہ کی بجائے فرض عین سمجھنے لگے ہیں اور اسے اسلام کا چھٹا رکن سمجھتے ہیں۔ لیکن ان کا انداز فکر درست نہیں۔ جہاد افضل الاعمال ہونے کے باوجود نہ فرض عین ہے اور نہ اسلام کا چھٹا رکن (تفصیل کے لیے دیکھئے سورۃ نساء کی آیت نمبر ٩٦ اور سورۃ توبہ کی آیت نمبر ٩٢ کے حواشی)