سورة البقرة - آیت 215

يَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ ۖ قُلْ مَا أَنفَقْتُم مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

آپ سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیا خرچ کریں؟ آپ کہہ دیجئے جو مال تم خرچ کرو وہ ماں باپ کے لئے ہے اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لئے ہے (١) اور تم جو کچھ بھلائی کرو گے اللہ تعالیٰ کو اس کا علم ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢٨٤] انفاق سبیل اللہ میں ترتیب: بعض مالدار صحابہ (مثلاً عمرو بن الجموح وغیرہ) نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیا تھا جس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی اور یہ تو ظاہر ہے کہ یہ سوال نفلی صدقات کے متعلق ہی ہو سکتا ہے انفاق فی سبیل اللہ کے بارے میں تین سوالات ہی ہو سکتے ہیں (1) کتنا خرچ کیا جائے؟ (2) کس کس پر خرچ کیا جائے؟ اور (3) کن اشیاء میں سے خرچ کیا جائے؟ فرضی صدقہ (یعنی زکوٰۃ) کے بارے میں ان تینوں سوالوں میں سے دوسرے سوال کا جواب جو سب سے اہم تھا جو قرآن کریم نے خود بالتفصیل دے دیا ہے (9: 60) باقی دو سوالوں کا جواب سنت میں بالتفصیل مذکور ہے یہاں نفلی صدقہ میں بھی سب سے پہلے اسی دوسرے اہم سوال کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ کہ کن کن کو دیا جائے۔ نفلی صدقات اور فرضی صدقات کے مصارف میں فرق ہے۔ کیونکہ نفلی صدقات کا تعلق انفرادی معاملات سے ہے اور زکوٰۃ کے مصارف کا تعلق اجتماعی معاملات سے بہرحال انفرادی اور نفلی صدقہ کے خرچ کے بارے میں بتایا گیا کہ سب سے پہلے حقدار والدین ہوتے ہیں۔ اس کے بعد درجہ بدرجہ اقارب، یتیم، فقراء اور مسافر وغیرہ۔ نیز فرمایا کہ جو کچھ بھی تم خرچ کرو، خواہ زیادہ ہو یا کم، معاشرہ ے ان افراد کو تمہیں ملحوظ رکھنا چاہیے اور اسی ترتیب سے ملحوظ رکھنا چاہیے جو یہاں بیان کی جا رہی ہیں۔