سورة الكهف - آیت 46

الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِندَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

مال و اولاد تو دنیا کی زینت ہے (١) اور (ہاں) البتہ باقی رہنے والی نیکیاں (٢) تیرے رب کے نزدیک از روئے ثواب اور (آئندہ کی) اچھی توقع کے بہت بہتر ہیں۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٤٢] باقیات صالحات :۔ یہ مال و دولت اور بیٹے وغیرہ انسان کے لیے دلچسپی کا سامان ضرور ہیں لیکن ان چیزوں پر ایسا فریفتہ نہ ہونا چاہیے کہ انسان اللہ تعالیٰ کو اور اخروی زندگی کو بھول ہی جائے اور انہی چیزوں پر تکیہ کر بیٹھے بلکہ اسے ایسی چیزوں پر امید وابستہ رکھنی چاہیے جو فنا ہونے والی نہیں بلکہ باقی رہنے والی ہیں اور وہ اس کے نیک اعمال ہیں جن کا بدلہ بھی بہت اچھا ملے گا اور ان پر توقع بھی لگائی جاسکتی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کلمات : (سبحان اللّٰہ والحمد للّٰہ ولا الّٰہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ) باقیات صالحات ہیں۔ بعض دفعہ انسان ایسے نیک اعمال کی داغ بیل ڈال جاتا ہے کہ بعد میں مدتوں لوگ اس سے مستفیض ہوتے رہتے ہیں ایسے اعمال کا اجر اسے اس کی موت کے بعد بھی ملتا رہتا ہے جیسے کوئی شخص نیک اولاد چھوڑ جائے جو اس کے حق میں دعا کرتی رہے یا کوئی دینی مدرسہ قائم کر جائے جب تک اس میں تعلیم و تعلم کا سلسلہ جاری رہے گا اس کو حصہ رسدی ثواب پہنچتا رہے گا یا کوئی رفاہ عامہ کا کام کر جائے جیسے کنواں یا سرائے، ہسپتال یا باغ یا کوئی اور چیز عام لوگوں کے فائدہ کے لیے وقف کر جائے (مسلم کتاب الوصیۃ باب مایلحق الانسان من الثواب بعد وفاتہ) یہی چیزیں اس لائق ہیں جن میں انسان کو اپنی کوششیں صرف کرنا چاہییں۔ دنیا کی فانی چیزوں میں مستغرق نہ ہونا چاہیے۔