وَاضْرِبْ لَهُم مَّثَلًا رَّجُلَيْنِ جَعَلْنَا لِأَحَدِهِمَا جَنَّتَيْنِ مِنْ أَعْنَابٍ وَحَفَفْنَاهُمَا بِنَخْلٍ وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمَا زَرْعًا
اور انھیں ان دو شخصوں کی مثال بھی سنا دے (١) جن میں سے ایک کو ہم نے دو باغ انگوروں کے دے رکھے تھے اور جنہیں کھجوروں کے درختوں سے ہم نے گھیر رکھا تھا (٢) اور دونوں کے درمیان کھیتی لگا رکھی تھی (٣)۔
[٣٤] ایک مال دار کافر اور غریب مومن کے طرز عمل کا موازنہ :۔ یہ مثال دراصل ان قریشی سرداروں پر منطبق ہوتی ہے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ اگر آپ کسی وقت ان مسکینوں کو اپنی مجالس سے اٹھا دیں تو ہم اطمینان سے آپ کی باتیں سنیں۔ اس مثال میں جن دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک کافر و مشرک تھا۔ آخرت پر ایمان نہیں رکھتا تھا اور مالدار اور صاحب جائداد تھا جیسا کہ قریشی سردار تھے، دوسرا توحید پرست تھا، مومن تھا اللہ پر بھروسہ رکھنے والا تھا لیکن غریب اور مفلس تھا جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے جن کے متعلق قریشی سرداروں نے آپ سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ آپ انھیں اپنی مجلس سے ہٹا دیں۔ رہی یہ بات کہ اس مثال میں جو دو کردار بیان کیے گئے ہیں یہ محض سمجھانے کے لیے بطور تمثیل بیان کیے گئے ہیں یا فی الواقع ایسے شخص اس دنیا میں کسی وقت موجود تھے؟ اور یہ واقعہ اس دنیا میں پیش آیا تھا ؟ اس بات پر مفسرین کا اختلاف ہے اور جن لوگوں نے انھیں واقعہ تسلیم کیا ہے انہوں نے تو ان کے نام بھی لکھ دیئے ہیں کہ وہ دو حقیقی بھائی تھے۔ باپ کی طرف سے ورثہ ملا تھا۔ ایک جو دنیا دار تھا اس نے اس ورثہ سے جائداد خریدی پھر خوب محنت کی تو دو باغوں کا مالک بن گیا۔ دوسرا درویش منش انسان تھا اور اسے مال و دولت سے کچھ دلچسپی نہ تھی اسے جو ورثہ ملا وہ بھی اس نے اللہ کے راستہ میں خرچ کردیا تھا اور بعض کے نزدیک یہ دو آدمی ہمسائے تھے جن کی پوری طرز زندگی ایک دوسرے سے یکسر مختلف تھی۔ جو بھی صورت ہو اس تمثیل سے جو اصل فائدہ مقصود ہے وہ حاصل ہو ہی جاتا ہے۔ [٣٥] جو شخص کافر و مشرک اور دو باغوں کا مالک تھا اس آیت میں اس کے باغوں کی بہار کا منظر پیش کیا گیا ہے یعنی ان دونوں کے درمیانی حصہ میں کھیتی باڑی ہوتی تھی اور غلہ اگتا تھا۔ ارد گرد پھل دار درخت تھے پھر ان باغوں کی چار دیواری کھجوروں کے درختوں کی تھی جن پر انگور کی بیلیں چڑھائی گئی تھیں۔ ان دونوں باغوں کے درمیان ایک نہر جاری تھی جو انھیں سیراب کرتی اور آپس میں ملاتی تھی۔ زمین زرخیز و شاداب تھی لہٰذا پھل دار درخت بھی بھرپور پھل لاتے اور غلہ بھی وافر مقدار میں پیدا ہوتا تھا۔ گویا اس شخص کو بیٹھنے کے لیے ٹھنڈی چھاؤں، پینے کے لیے ٹھنڈا پانی، کھانے کو باافراط غلہ ' پھل اور دیکھنے کو خوش نما منظر سب کچھ موجود تھا جس پر وہ پھولا نہ سماتا تھا۔