سورة الكهف - آیت 28

وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ ۖ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور اپنے آپ کو انھیں کے ساتھ رکھا کر جو اپنے پروردگار کو صبح شام پکارتے ہیں اور اسی کے چہرے کے ارادے رکھتے ہیں (رضا مندی چاہتے ہیں)، خبردار! تیری نگاہیں ان سے نہ ہٹنی پائیں (١) کہ دنیاوی زندگی کے ٹھاٹھ کے ارادے میں لگ (٢) جا۔ دیکھ اس کا کہنا نہ ماننا جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے اور جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور جس کا کام حد سے گزر چکا ہے (٣)۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢٨] غریب اور مخلص مومنوں سے آپ کو وابستہ رہنے کی ہدایت :۔ یہ صبح و شام اللہ کے ذکر میں مشغول رہنے والے اور اللہ کی رضا چاہنے والے لوگ بموجب روایات سیدنا بلال بن رباح رضی اللہ عنہ، سیدنا صہیب رومی رضی اللہ عنہ، سیدنا خباب بن الارت رضی اللہ عنہ ، سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ تھے جو سب کے سب غریب طبقہ سے تعلق رکھتے تھے اور ان میں سے اکثر سرداران قریش کے غلام یا آزاد کردہ غلام تھے جو اکثر اوقات آپ کی صحبت میں رہا کرتے تھے اب اونچی ناک والے قریشی سرداروں مثلاً عیینہ بن بدر اور اقرع بن حابس وغیرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہا کرتے تھے کہ ہر وقت یہ رذیل قسم کے لوگ آپ کے پاس بیٹھے ہوتے ہیں تو ان کی موجودگی میں ہم کیسے ان کے ساتھ آپ کے پاس بیٹھیں۔ ممکن ہے آپ کے دل میں کچھ ایسا خیال آبھی گیا ہو کہ یہ لوگ تو بہرحال خالص مومن ہیں۔ سرداروں کے آنے پر کچھ دیر انھیں الگ کردینے سے اگر یہ قریشی سردار میری بات غور سے سن لینے اور ایمان لانے پر تیار ہوجائیں تو کیا حرج ہے؟ خصوصاً اس صورت میں کہ آپ ان قریشی سرداروں کے ایمان لانے پر حریص بھی تھے کہ اس طرح اسلام کو تقویت حاصل ہوگی لیکن اللہ تعالیٰ نے بروقت ہدایت فرما دی کہ ایسا خیال بھی دل میں نہ لائیے اپنا دل انہی غریب اور مخلص مومنوں کے ساتھ وابستہ رکھیے یہی لوگ قیمتی سرمایہ ہیں۔ قریشی سرداروں کے مطالبہ اور ان کی ٹھاٹھ باٹھ کی طرف مت دیکھئے کیونکہ ان کے اس مطالبہ سے ہی یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ ایمان لانے میں کس حد تک مخلص ہیں۔ [٢٩] یعنی جو شخص آخرت میں اللہ کے سامنے جوابدہی پر ایمان ہی نہیں رکھتا وہ تو جدھر اور جس طرح اپنا ذاتی مفاد دیکھے گا فوراً ادھر جھک جائے گا اور جو کچھ اس کا جی چاہے گا وہی کچھ وہ کرے گا اس کا کوئی کام اصول کے تحت یا حد اعتدال تک محدود نہ رہے گا لہٰذا ایسے لوگوں کی بات ہرگز نہ مانیے۔