سورة الإسراء - آیت 98

ذَٰلِكَ جَزَاؤُهُم بِأَنَّهُمْ كَفَرُوا بِآيَاتِنَا وَقَالُوا أَإِذَا كُنَّا عِظَامًا وَرُفَاتًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ خَلْقًا جَدِيدًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

یہ سب ہماری آیتوں سے کفر کرنے اور اس کے کہنے کا بدلہ ہے کہ کیا جب ہم ہڈیاں اور ریزے ریزے ہوجائیں گے پھر ہم نئی پیدائش میں اٹھ کھڑے کئے جائیں (١) گے؟

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١١٦] انسان محیر العقول عادی باتوں پر غور نہیں کرتا اور واقع ہوجانے والی باتوں کا انکار کردیتا ہے :۔ انسان کی عادت ہے کہ کوئی بات خواہ کتنی ہی محیرالعقول ہو جب وہ عادت بن جائے تو اس میں غور کرنا ہی چھوڑ دیتا ہے۔ مثلاً سب سے زیادہ محیر العقول اس کا اپنا جسم ہے جو ہمہ وقت ایک آٹو میٹک مشین کی طرح کام کر رہا ہے جب سے وہ پیدا ہوا اس وقت سے اس کا دل حرکت کر رہا ہے اور مرتے دم تک حرکت کرتا رہے گا۔ اس میں ایک لمحہ وقفہ نہیں ہوتا اور جب وقفہ پڑے گا تو موت واقع ہوجائے گی۔ اسی طرح اس کے پھیپھڑے، معدہ، جگر، گردے سب اپنا اپنا کام اس طرح کر رہے ہیں کہ اسے کسی بات کی خبر نہیں ہوتی کہ اس کے اندر کیا کچھ ہو رہا ہے۔ وہ غذا کھاتا ہے تو از خود اس سے خون بنانے والی مشین اس کے اندر نصب ہے اسے خون میں تبدیل کرنا شروع کردیتی ہے اور جو فضلہ بچتا ہے تو طبیعت خود اسے مجبور کردیتی ہے کہ رفع حاجت کرے اور یہی خون اس کی زندگی کا سہارا ہے پھر اسی غذا کے ملغوبہ سے مادہ کے اندر دودھ بھی بنتا ہے پھر انسان کی تربیت اس کے دیکھنے کا نظام، اس کے سننے، اس کی نیند، نیند میں انسان کے گھسے ہوئے ذرات کی جگہ نئے ذرات پیدا ہونے کا نظام اللہ تعالیٰ کے ایسے ہی محیرالعقول کارنامے ہیں۔ لیکن ان میں انسان نے کبھی غور کرنا گوارا نہیں کیا دوسری طرف اس کا یہ حال ہے کہ اگر کوئی محیر العقول بات اسے بتائی جائے کہ وہ مستقبل میں واقع ہوگی تو فوراً اس کا انکار کردیتا ہے اور ایسی بات کہنے والے کو دیوانہ کہنا شروع کردیتا ہے مثلاً دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اگر کوئی شخص یہ بات کہہ دیتا کہ ایک وقت آنے والا ہے جب ایک انسان دنیا کے ایک کنارے پر ہوگا اور دوسرا دوسرے کنارے پر اور وہ آپس میں بات چیت کریں گے تو یقیناً ایسے شخص کو دیوانہ کہہ دیا جاتا یا اسی طرح اگر کوئی یہ کہتا کہ ایک سواری پیدا ہوگی جو ہزاروں من بوجھ اٹھائے ہوا میں بڑی تیزی سے اڑا کرے گی تو ایسی بات کا سب لوگ انکار کردیتے۔ مگر آج جب ٹیلیفون اور ہوائی جہاز پیدا ہوگئے ہیں اور انسان کی عادت میں شامل ہوگئے ہیں تو اب ان کو تو تسلیم کرنے لگا ہے۔ مگر مستقبل کے متعلق اگر اب بھی کوئی محیرالعقول بات کہی جائے تو فوراً انکار کردے گا۔ بالکل ایسی ہی بات دوبارہ پیدا ہونے کی ہے۔ حالانکہ اگر وہ صرف اپنے جسم کی اندرونی ساخت پر ہی غور کرلیتا بلکہ کسی چھوٹے سے چھوٹے جانور کے جسم کی ساخت پر غور کرلیتا تو اسے معلوم ہوسکتا تھا کہ جو خالق ایسی محیرالعقول مشینری بنانے پر قادر ہے وہ اس کے ذرات کو اکٹھا بھی کرسکتی ہے اور اس میں روح پھونک کر دوبارہ اٹھا کر کھڑا بھی کرسکتی ہے۔