سورة الإسراء - آیت 51

أَوْ خَلْقًا مِّمَّا يَكْبُرُ فِي صُدُورِكُمْ ۚ فَسَيَقُولُونَ مَن يُعِيدُنَا ۖ قُلِ الَّذِي فَطَرَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ ۚ فَسَيُنْغِضُونَ إِلَيْكَ رُءُوسَهُمْ وَيَقُولُونَ مَتَىٰ هُوَ ۖ قُلْ عَسَىٰ أَن يَكُونَ قَرِيبًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

یا کوئی اور ایسی خلقت جو تمہارے دلوں میں بہت ہی سخت معلوم ہو، (١) پھر وہ یہ پوچھیں کہ کون ہے جو دوبارہ ہماری زندگی لوٹائے؟ جواب دیں کہ وہی اللہ جس نے تمہیں اول بار پیدا کیا، اس پر وہ اپنے سر ہلا ہلا کر (٢) آپ سے دریافت کریں گے کہ اچھا یہ ہے کب؟ تو آپ جواب دے دیں کہ کیا عجب کہ وہ (ساعت) قریب ہی آن لگی ہو (٣)۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٦١] یعنی تمہیں یہ خیال ہے کہ ہماری ہڈیاں گل سڑ کر اور ریزہ ریزہ ہو کر مٹی میں مل کر مٹی ہی بن جائیں گی تو پھر کیسے پیدا ہوں گے مگر مٹی تو پھر بھی ایک ایسی چیز ہے جو مسام دار ہے اور پانی اور ہوا اس کے اندر داخل ہوسکتے ہیں جو زندگی کے لیے ضروری عناصر ہیں اس سے ہر قسم کی نباتات بھی اگتی ہے لیکن اگر تم کوئی سخت چیز بن جاؤ جیسے پتھر کہ جس کے اندر پانی یا ہوا داخل نہیں ہوسکتے اور اس کے اجزاء اور ذرات مٹی کی نسبت آپس میں بہت زیادہ جڑے ہوئے اور پیوست ہوتے ہیں یا پتھر سے بھی سخت چیز مثلاً لوہا بن جاؤ یا اس سے بھی کوئی سخت چیز جو تمہارے دل میں آسکتی ہو، وہ بن جاؤ تب بھی اللہ تمہیں اس سخت چیز سے دوبارہ زندہ کرکے اٹھا کھڑا کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ [٦٢] بعث بعد الموت پر کفار کے اعتراضات :۔ پھر ان مشرکوں کا دوسرا سوال یہ ہوتا ہے کہ وہ کون سی ہستی ہے جو ہمیں دوبارہ پیدا کرے گی؟ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر اور کئی دوسرے مقامات پر بھی یہ دیا ہے کہ جس ہستی نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تھا وہ دوسری بار بھی پیدا کرسکتی ہے اور یہ تو واضح بات ہے کہ دوسری بار پیدا کرنا پہلی بار پیدا کرنے کی نسبت آسان ہوتا ہے۔ یہ جواب سن کر وہ از راہ مذاق سر ہلاتے اور کہتے ہیں کہ اچھا یہ بات تو سمجھ آگئی مگر بتاؤ یہ ایسا واقعہ ہوگا کب؟ یہ ان کا تیسرا سوال ہوتا ہے۔ اس سوال کا متعین وقت بتانا اللہ کی مشیئت کے خلاف ہے جیسا کہ کسی کو اس کی موت کا معین وقت بتانا یا کسی نافرمان قوم کو اس پر عذاب نازل ہونے کا متعین وقت بتانا اللہ کی مشیت کے خلاف ہے کہ اس سے انسان کی پیدائش اور ابتلاء کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے لہٰذا اس سوال کا جواب یہ دیا کہ جس چیز کا واقع ہونا ایک یقینی امر ہو وہ قریب ہی ہوتی ہے جیسے ہر انسان کی موت یقینی ہے مگر اس کا وقت معین نہیں اور کسی بھی وقت یا ابھی بھی آسکتی ہے لہٰذا اسے قریب ہی سمجھنا چاہیئے۔