وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا (١) اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے۔
[٢٧] والدین سے بہتر سلوک کیسا ہو؟ اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ متصل والدین کا کیوں ذکر فرمایا ؟:۔ یعنی والدین سے تمہارا سلوک ایسا ہونا چاہیے جیسے غلام کا اپنے آقا سے ہوتا ہے۔ ان سے ادب و انکساری سے پیش آؤ اور ساتھ ہی ساتھ ان کے حق میں اللہ تعالیٰ سے رحمت و مغفرت کی دعا بھی کرتے رہو۔ کیونکہ وہی تمہاری پرورش و تربیت کا سبب بنے تھے۔ یہیں سے یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر کے ساتھ ہی متصلاً والدین سے بہتر سلوک کا ذکر کیوں فرمایا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر چیز کا پروردگار تو رب کائنات ہے۔ جس نے زمین بنائی، ہوا، پانی، سورج، چاند وغیرہ پیدا کئے۔ پھر بارش برسائی اور پھر انسان کی ساری ضروریات زندگی زمین سے وابستہ کردیں۔ اس طرح انسان، تمام جانداروں اور باقی سب چیزوں کا پالنے والا اور پرورش و تربیت کرنے والا حقیقتاً اللہ رب العالمین ہی ہوا۔ پھر اس کے بعد انسان کی پرورش کا ظاہری سبب اس کے والدین کو بنایا اور یہ تو ظاہر ہے کہ جس قدر مشکل سے انسان کا بچہ پلتا ہے کسی جانور کا بچہ اتنی مشکل سے نہیں پلتا۔ دوسرے جانوروں کے بچے پیدا ہوتے ہی چلنے پھرنے لگتے ہیں۔ پھر ان پر گرمی یا سردی یا بارش کا اتنا اثر نہیں ہوتا جتنا انسان کے بچے پر ہوتا ہے دوسرے جانوروں کے بچے اتنے بیمار بھی نہیں ہوتے جتنا انسان کا بچہ فوراً بیمار ہوجاتا ہے۔ پھر ماں راتوں کو جاگ جاگ کر اور بچے کے آرام پر اپنا آرام قربان کرتی ہے۔ باپ بچہ اور اس کی ماں دونوں کے اخراجات بھی برداشت کرتا ہے پھر اس کی تربیت میں پورا تعاون بھی کرتا ہے۔ تب جاکر انسان کا بچہ بڑا ہوتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے والدین کے دل میں اپنی اولاد کے لیے اتنی بے پناہ محبت اور ایثار کا جذبہ نہ رکھ دیا ہوتا تو انسان کے بچہ کی کبھی تربیت نہ ہوسکتی۔ اب اگر انسان اپنے والدین کو بڑھاپے کی حالت میں بےیارو و مددگار چھوڑ دے اور ان کی طرف توجہ نہ کرے یا ان سے گستاخی سے پیش آئے تو اس سے زیادہ بے انصافی اور ظلم اور کیا ہوسکتا ہے؟ معاشرتی زندگی کا یہ وہ نہایت اہم باب ہے جس کی طرف سے دنیادار انسان ہمیشہ غافل ہی رہے ہیں مگر اسلام نے اس طرف بھرپور توجہ دلائی ہے اور دعا سے مقصود یہ ہے کہ یا اللہ! میں تو ان کا حق الخدمت پوری طرح بجا لانے سے قاصر ہوں لہٰذا تو ہی ان پر بڑھاپے میں اور مرنے کے بعد نظر رحمت فرما۔ اب ہم اس سلسلہ میں چند ارشادات نبوی پیش کرتے ہیں : والدین سے بہتر سلوک کے متعلق چند احادیث :۔ ١۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !کو سب سے زیادہ کون سا عمل پسند ہے؟‘‘ فرمایا : ’’نماز کی بروقت ادائیگی‘‘ میں نے پوچھا ’’پھر کون سا ؟“ فرمایا : ’’ماں باپ سے اچھا سلوک کرنا‘‘ میں نے پوچھا ’’پھر کون سا‘‘ فرمایا : ’’اللہ کی راہ میں جہاد کرنا“(بخاری۔ کتاب الادب) ٢۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ”میرے بہتر سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟‘‘فرمایا : ’’تیری ماں“ اس نے کہا ”پھر کون؟‘‘ فرمایا : ”تیری ماں“اس نے پوچھا ”پھر کون؟“ فرمایا : “تیری ماں“اس نے چوتھی بار پوچھا ’’پھر کون؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تیرا باپ‘‘ (بخاری۔ کتاب الادب من احق الناس بحسن الصحبۃ) ٣۔ سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنے ماں باپ کو گالی دے“ لوگوں نے کہا۔ ”یارسول اللہ ! بھلا کون ماں باپ کو گالی دیتا ہے؟“فرمایا، ’’ماں باپ کو گالی دینا یوں ہے کہ ایک آدمی دوسرے کے باپ یا ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ جواب میں اس کے باپ یا ماں کو گالی دیتا ہے“(بخاری۔ کتاب الادب باب لایسب الرجل والدیہ) ٤۔ ایک دفعہ آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا ”کیا میں تمہیں بڑے بڑے گناہوں سے خبردار نہ کروں؟“ہم نے کہا، ”ضرور بتائیے یارسول اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا، عقوق والدین ‘جھوٹ بولنا، جھوٹی گواہی دینا، سن لو، جھوٹ بولنا، جھوٹی گواہی دینا۔‘‘ برابر آپ یہی فرماتے رہے۔ میں سمجھا کہ آپ چپ ہی نہ ہوں گے۔ (بخاری، کتاب الادب، باب عقوق الوالدین) ٥۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا، ’’میں جہاد پر جانا چاہتا ہوں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا ’’تمہارے والدین زندہ ہیں؟‘‘کہنے لگا ”جی ہاں“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”انہی کی خدمت کر (یہی تیرا جہاد ہے)‘‘ (بخاری، کتاب الادب، باب لایجاہد الاباذن الابؤین) ٦۔ سیدہ اسماء بنت ابی بکر کہتی ہیں کہ میری ماں میرے پاس مدینہ آئی اور وہ کافرہ تھی۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ”یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا میں اس سے صلہ رحمی کروں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”ضرور“(بخاری، کتاب الادب، باب صلۃ الوالد المشرک)