وَإِذَا أَرَدْنَا أَن نُّهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيرًا
اور جب ہم کسی بستی کی ہلاکت کا ارادہ کرلیتے ہیں تو وہاں کے خوشحال لوگوں کو (کچھ) حکم دیتے ہیں اور وہ اس بستی میں کھلی نافرمانی کرنے لگتے ہیں تو ان پر (عذاب کی) بات ثابت ہوجاتی ہے پھر ہم اسے تباہ و برباد کردیتے ہیں (١)۔
[٦ ١] اللہ کی نافرمانی میں پہلے خوشحال لوگ مبتلا ہوتے ہیں :۔ اس آیت میں ﴿ اَمَرْنَا فِیْھَا﴾سے مراد امر تکوینی ہے یعنی جس بستی کے لیے ہلاکت مقدر ہوچکی ہو۔ اس میں ہوتا یہ ہے کہ خوشحال لوگ عیاشیوں اور ظلم و زیادتی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ان میں بے حیائی، فحاشی، زنا، کمزوروں کے حقوق غصب کرنا، اللہ تعالیٰ کی نافرمانی، نعمتوں کی ناقدر شناسی دنیا میں غیر معمولی انہماک وغیرہ وغیرہ امراض پیدا ہوجاتی ہیں اور یہ سب ایسی امراض ہیں جو عام طور پر امیروں اور خوشحال لوگوں کو لاحق ہوتی ہیں پھر ان کے زیر سایہ لوگ بھی انھیں کی چال چلنے لگتے ہیں اور آہستہ آہستہ انھیں کا سا رنگ ڈھنگ اختیار کرنے لگتے ہیں اس طرح سارا معاشرہ فسق و فجور کی لپیٹ میں آجاتا ہے اور عذاب الٰہی کا مستحق بن جاتا ہے اور با لآخر ان کی شامت آجاتی ہے۔