مَّنِ اهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۗ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبْعَثَ رَسُولًا
جو راہ راست حاصل کرلے وہ خود اپنے ہی بھلے کے لئے راہ یافتہ ہوتا ہے اور جو بھٹک جائے اس کا بوجھ اسی کے اوپر ہے، کوئی بوجھ والا کسی اور کا بوجھ اپنے اوپر نہ لادے گا (١) اور ہماری سنت نہیں کہ رسول بھیجنے سے پہلے ہی عذاب کرنے لگیں (٢)۔
[٤ ١] باز پرس فرداً فرداً ہوگی اجتماعی برائیوں میں ہر فرد کو اس کا حصہ ملے گا :۔ یہ قانون جزاء و سزا کا ایک نہایت اہم جزو ہے یعنی’’جو کرے گا وہی بھرے گا‘‘ ایک کے گناہ کا بار دوسرے کی طرف منتقل نہیں ہوسکتا۔ اور جتنا کسی کا گناہ ہوگا اتنی اسے سزا ضرور ملے گی اور اتنی ہی ملے گی نہ کم نہ زیادہ۔ اس آیت سے جو اہم بات معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ہر ایک سے فرداً فرداً باز پرس ہوگی۔ کوئی شخص اپنے گناہ کا بار معاشرہ پر ڈال کر خود بری الذمہ نہ ہوسکے گا بلکہ یہ دیکھا جائے گا کہ اس اجتماعی جرم میں اس خاص فرد کا کتنا حصہ ہے۔ اسی کے مطابق اسے سزا ملے گی۔ لہٰذا ہر شخص کو اپنے کردار پر نظر رکھنا چاہیے۔ اسے یہ نہ دیکھنا چاہیئے کہ دوسرے کیا کر رہے ہیں اور نہ ہی ایسا سہارا لینا چاہیئے۔ ایسا سہارا کسی کام نہ آسکے گا بلکہ اپنے اعمال و افعال پر نظر رکھنا چاہیے۔ [٥ ١] سزا سے پہلے اتمام حجت :۔ قانون جزاء و سزا کا دوسرا اہم جزو ہے جو یہ ہے کہ مجرم کو سزا دینے سے پیشتر اس پر اتمام حجت ضروری ہے دنیوی عذاب کے لیے یہ شرط بھی ضروری ہے اور اخروی عذاب کے لیے بھی اتمام حجت کی ایک صورت عہد الست یا فطری داعیہ ہے اور پیغمبروں اور کتابوں کا بھیجنا اسی داعیہ فطرت کو اجاگر کرنے والی چیزیں ہیں جو اسے اسی عہد کی یاددہانی کراتی ہیں۔ اور وہ عہد یہ ہے کہ ساری کائنات کا پروردگار صرف اللہ تعالیٰ اکیلا ہے جس کا کوئی شریک نہیں لہٰذا اسی کی عبادت کی جائے۔