إِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ عَلَى الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ ۚ وَإِنَّ رَبَّكَ لَيَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ
ہفتے کے دن کی عظمت تو صرف ان لوگوں کے ذمے ہی ضروری تھی جنہوں نے اس میں اختلاف کیا تھا، (١) بات یہ ہے کہ آپ کا پروردگار خود ہی ان میں ان کے اختلاف کا فیصلہ قیامت کے دن کرے گا۔
[١٢٦] ہفتہ کی چھٹی یہود کے اصرار پر مقرر کی گئی :۔ ہفتہ کے دن کی تعظیم کا بھی ملت ابراہیمی میں کوئی حکم نہ تھا بلکہ جمعہ کا دن ہی مقرر کیا گیا تھا اور مسلمان بھی جمعہ ہی کی تعظیم کرتے ہیں۔ اور ہفتہ کا دن یہودیوں پر یوں مسلط کیا گیا کہ موسیٰ علیہ السلام نے انھیں جمعہ کی تعظیم کے لیے کہا تو کہنے لگے کہ اللہ نے زمین و آسمان کو چھ دن میں پیدا کیا۔ وہ جمعہ کے دن فارغ ہوا اور ساتویں (ہفتہ) کے دن آرام کیا تو ہم بھی ہفتہ کے دن چھٹی کیا کریں گے۔ اللہ کے آرام کے متعلق یہود کا یہ تصور انتہائی غلط تھا۔ تاہم ان کی اپنے نبی سے ضد کے نتیجہ میں ان پر ہفتہ کا دن مقرر کیا گیا اور سختی یہ کی گئی کہ وہ ہفتہ کے دن کاروبار سے مکمل طور پر چھٹی کریں۔ اور اللہ کی عبادت میں سارا دن گزاریں۔ پھر جس طرح انہوں نے اس حکم کی خلاف ورزی کی۔ اس کا تفصیلی بیان سورۃ بقرہ آیت نمبر ٦٥ اور سورۃ اعراف آیت نمبر ١٦٦ کے تحت گذر چکا ہے۔ سبت کے بارے یہود نے پہلا اختلاف تو یہ کیا کہ جمعہ کے دن کے بجائے ہفتہ کے دن پر اصرار کیا۔ پھر یہود کا ایک قبیلہ جو بستی ایلہ میں مقیم تھا، سبت کی تعظیم پر قائم نہ رہا اور حیلوں بہانوں سے اس دن مچھلیوں کے شکار کی راہ ہموار کرلی۔ اور جب انھیں دوسرا فریق منع کرتا تو زبانی وہ یہی کہتے تھے کہ ہم نے کب سبت کی حرمت کو توڑا ہے۔ ہم سبت کے دن کب شکار کرتے ہیں۔ شکار تو ہم اتوار کو کرتے ہیں پھر عیسیٰ علیہ السلام آئے تو وہ بھی موسوی شریعت کی پیروی کی تعلیم دیتے رہے۔ اور ہفتہ کے دن کی تعظیم کی تاکید کرتے رہے مگر بعد میں نصاریٰ نے اختلاف کیا اور ہفتہ کی بجائے اتوار کا دن چھٹی کا دن قرار دے دیا۔ چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ہم پیچھے آئے ہیں مگر قیامت کے دن پہلے ہوں گے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اہل کتاب کو کتاب پہلے ملی اور ہمیں بعد میں ملی۔ پس وہ دن جو اللہ نے ان پر فرض کیا تھا اس میں انہوں نے اختلاف کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں وہ دن بتا دیا کہ وہ ہمارے پیچھے رہ گئے یہود تو ایک دن پیچھے رہے اور نصاریٰ اس کے بعد مزید ایک دن“ [١٢٧] ایک قسم کے اختلاف تو وہ ہیں جو اوپر مذکور ہوئے اور دوسرا یہ کہ یہود یہ کہتے تھے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام ہمارے دین پر تھے یعنی یہودی تھے۔ اور نصاریٰ یہ کہتے تھے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام ہمارے دین پر تھے یعنی نصاریٰ تھے۔ پھر مشرکین مکہ ہوں یا یہود، نصاریٰ ہوں یا مسلمان سب اپنا رشتہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے جوڑتے ہیں اور انھیں اپنا پیشوا تسلیم کرتے ہیں۔ ان سب باتوں کا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فیصلہ کر دے گا کہ سچا کون تھا۔ اور جھوٹا کون اور ان میں اختلافات کی حقیقت کیا تھی۔؟