مَن كَفَرَ بِاللَّهِ مِن بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَٰكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ
جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ سے کفر کرے بجز اس کے جس پر جبر کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر برقرار ہو (١) مگر جو لوگ کھلے دل سے کفر کریں تو ان پر اللہ کا غضب ہے اور انہی کے لئے بہت بڑا عذاب ہے۔
[١١١] اضطراری حالت میں کلمہ کفر کہنے کی رخصت :۔ اگر کوئی مسلمان مصیبتوں اور سختیوں سے گھبرا کر یا جان کے خطرہ کے وقت منہ سے کوئی کلمہ کفر کہہ دے بشرطیکہ اس کا دل ایمان پر بدستور قائم ہو تو اس بات کی رخصت ہے ورنہ اصل حکم یا عزیمت یہی ہے کہ اس وقت بھی اس کے پائے استقلال میں لغزش نہ آنے پائے اور وہ اس رخصت سے فائدہ نہ اٹھائے۔ چنانچہ دور مکی میں مسلمانوں پر قریش مکہ کی طرف سے جو مظالم و شدائد ڈھائے جاتے رہے ان میں اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عزیمت پر ہی عمل پیرا رہے۔ وہ مصائب جھیلتے رہے مگر ان کے پائے استقلال میں ذرہ بھر لغزش نہ آئی۔ حتیٰ کہ بعض صحابہ نے اپنی جانیں تک قربان کردیں۔ لے دے کے ایک مثال سیدنا عمار بن یاسررضی اللہ عنہ کی ہمیں ملتی ہے۔ عمار رضی اللہ عنہ خود ان کے باپ یاسر اور ان کی ماں سمیہ سب ابو جہل سردار قریش مکہ کے غلام تھے۔ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کے سامنے ان کے والد کو شہید کیا گیا اور ابو جہل لعین نے ان کی والدہ کی شرمگاہ میں نیزہ مار کر انھیں شہید کردیا۔ ان حالات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجبور ہو کر وہ سب کچھ کہہ دیا جو کافر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہلوانا چاہتے تھے پھر اسی وقت آپ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کی ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے ایسے اور ایسے حالات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہا اور ان کے معبودوں کا ذکر خیر کیا‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اپنے دل کی کیفیت بتاؤ‘‘ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کہنے لگے ’’میرا دل تو پوری طرح ایمان پر مطمئن ہے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اچھا اگر پھر تم سے وہ ایسا ہی سلوک کریں تو تم پھر اس رخصت سے فائدہ اٹھا لینا‘‘ اسی سلسلہ میں یہ آیات نازل ہوئیں۔ (بخاری۔ کتاب الاکراہ۔ باب قول اللہ الامن اکرہ وقلبہ مطمئن بالایمان) [١١٢] یعنی جو لوگ اسلام لانے کے بعد پیش آمدہ مصائب سے گھبرا کر اپنی سابقہ کفر کی آرام طلب زندگی کو ترجیح دینے لگیں اور کسی قسم کا دنیوی نقصان بھی برداشت کرنے پر آمادہ نہ ہوں اور انھیں وجوہ کی بنا پر برضاء و رغبت پھر کفر کی راہ اختیار کرلیں۔ تو ایسے لوگ فی الواقع عذاب عظیم کے مستحق ہیں۔