وَإِذَا بَدَّلْنَا آيَةً مَّكَانَ آيَةٍ ۙ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ قَالُوا إِنَّمَا أَنتَ مُفْتَرٍ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
جب ہم کسی آیت کی جگہ دوسری آیت بدل دیتے ہیں اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نازل فرماتا ہے اسے وہ خوب جانتا ہے تو یہ کہتے ہیں کہ تو تو بہتان باز ہے۔ بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر جانتے ہی نہیں (١)۔
[١٠٤] قیامت کب؟ ایک سوال کے مختلف جوابات :۔ اس سے مراد کافروں کے کسی سوال یا اعتراض کے مختلف مواقع پر مختلف جواب بھی ہوسکتے ہیں مثلاً کافر اکثر یہ پوچھتے رہتے کہ جس قیامت کی تم بات کرتے رہتے ہو وہ آئے گی کب؟ اس سوال کا ایک مقام پر یہ جواب دیا گیا کہ وہ اس طرح دفعتاً آئے گی کہ تمہیں خبر تک نہ ہوسکے گی۔ دوسرے مقام پر یہ جواب دیا گیا کہ جب وہ آئے گی تو اس وقت تمہارا ایمان لانا بے سود ہوگا اور تیسرے مقام پر یہ جواب دیا گیا کہ جب وہ آجائے گی تو اس میں لمحہ بھر کے لیے بھی تقدیم و تاخیر نہ ہوسکے گی اور چوتھے مقام پر یہ جواب دیا گیا کہ انھیں کہہ دیجئے کہ اس کا علم صرف اللہ کو ہے اور میں تو فقط اس کا رسول ہوں۔ ناسخ اور منسوخ احکام کی کیفیت :۔ اور یہ مراد بھی ہوسکتی ہے کہ قرآن میں اقوام و انبیائے سابقہ کے حالات مختلف مقامات پر کہیں اجمالاً بیان ہوئے ہیں کہیں تفصیلاً کہیں ایک پہلو کو مدنظر رکھا گیا ہے کہیں کسی دوسرے پہلو کو۔ یہی صورت احکام کی بھی ہے جن میں تدریج کا لحاظ رکھا گیا ہے اور یہ تدریج لوگوں کے عقل و فہم یا ان کی ایک وقت عدم استعداد اور دوسرے وقت استعداد کی بنا پر ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ چونکہ ہر طرح کے حالات سے باخبر ہے لہٰذا اس کی حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ حالات کے تقاضوں کے مطابق احکام نازل کرے۔ اور اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے حکیم ایک مریض کے لیے پہلے کوئی اور دوا تجویز کرتا ہے پھر مریض کی کیفیت کے مطابق دوا تبدیل کردیتا ہے۔ [١٠٥] تبدیلی احکام کی بنا پر آپ پر قرآن گھڑنے کا الزام :۔ ایسی تبدیلی کی صورت میں کافر یہ کہنے لگتے ہیں کہ یہ کلام اللہ کا نہیں ہوسکتا۔ اللہ تو پہلے ہی ہر بات سے باخبر ہے۔ اس کے احکام میں تبدیلی یا ایک سوال کے مختلف جوابات کیوں ہوتے ہیں۔ ہو نہ ہو یہ کلام اس نبی نے خود گھڑ لیا ہے۔ کسی وقت کوئی جواب دے دیتا ہے اور کسی وقت کوئی دوسرا۔ اللہ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ کافروں کا یہ جواب محض جہالت پر مبنی ہے۔ تبدیلی احکام کی وجہ یہ نہیں کہ نعوذ باللہ اللہ پہلے نہیں جانتا تھا بلکہ اس کی اصل وجہ لوگوں کی استعداد اور عدم استعداد اور حالات کے تقاضے ہوتے ہیں۔