وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَّجُلَيْنِ أَحَدُهُمَا أَبْكَمُ لَا يَقْدِرُ عَلَىٰ شَيْءٍ وَهُوَ كَلٌّ عَلَىٰ مَوْلَاهُ أَيْنَمَا يُوَجِّههُّ لَا يَأْتِ بِخَيْرٍ ۖ هَلْ يَسْتَوِي هُوَ وَمَن يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ ۙ وَهُوَ عَلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
اللہ تعالیٰ ایک اور مثال بیان فرماتا ہے (١) دو شخصوں کی، جن میں سے ایک تو گونگا ہے اور کسی چیز پر اختیار نہیں رکھتا بلکہ وہ اپنے مالک پر بوجھ ہے کہیں بھی اسے بھیج دو کوئی بھلائی نہیں لاتا، کیا یہ اور وہ جو عدل کا حکم دیتا ہے (٢) اور ہے بھی سیدھی راہ پر، برابر ہو سکتے ہیں؟
[٧٧] مشرکوں کی دوسری مثال :۔ پہلی مثال میں اختیار ہونے یا نہ ہونے کا تقابل تھا۔ اس مثال میں صفات کا تقابل پیش کیا گیا ہے۔ ایک طرف ایسا آدمی یا کوئی چیز ہے جو گونگا بہرا بھی ہے اور اپاہج بھی جو نہ چل پھر سکے نہ کوئی کام کرسکے۔ اگر اس کا مالک اسے کوئی کام کرنے کو کہے بھی تو وہ کبھی صحیح کام نہ کرسکے بلکہ الٹا اسے بگاڑ کے رکھ دے اور جہاں کہیں جائے مالک کو اس کے متعلق شکایات ہی سننا پڑیں اور وہ ہر لحاظ سے اپنے مالک پر بوجھ بنا ہوا ہو۔ دوسری طرف ایسا تندرست اور صحیح الدماغ انسان ہے جو خود بھی راہ راست پر ہے اور دوسروں کو بھی اس عدل و اعتدال کی راہ پر چلنے کا حکم دیتا ہے تو کیا ان کی حالت یکساں ہوسکتی ہے؟ بعض علماء نے اس مثال کا اطلاق بتوں اور ان کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ پر کیا ہے۔ اور بعض نے اس کا اطلاق مشرکوں اور ان کے مقابلہ میں مومنوں یا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا ہے۔