وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفَّاكُمْ ۚ وَمِنكُم مَّن يُرَدُّ إِلَىٰ أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْ لَا يَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَيْئًا ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ قَدِيرٌ
اللہ تعالیٰ ہی نے تم سب کو پیدا کیا وہی پھر تمہیں فوت کرے گا، تم میں ایسے بھی ہیں جو بدترین عمر کی طرف لوٹائے جاتے ہیں کہ بہت کچھ جانتے بوجھنے کے بعد بھی نہ جانیں (١) بیشک اللہ دانا اور توانا ہے۔
[٦٩] کوئی مخلوق اپنی مقررہ حد سے آگے نہیں بڑھ سکتی :۔ ان خارجی مثالوں کے بعد اللہ تعالیٰ نے انسان کی اپنی مثال پیش کی۔ کہ پہلے وہ بچہ ہوتا ہے اپنی تربیت کے لیے خوراک کھاتا ہے جس سے اس کا قد بھی بڑھتا ہے، ہمت بھی بڑھتی ہے، عقل اور علم میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے جو ایک مخصوص حد تک جاکر رک جاتا ہے اس کے بعد انسان وہی غذائیں کھاتا ہے جو پہلے کھاتا تھا مگر اس کے اثرات بالکل برعکس برآمد ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ اس کے جسم میں طاقت کے بجائے کمزوری واقع ہونا شروع ہوجاتی ہے عقل بہت کم ہونے لگتی ہے۔ یادداشت کمزور ہوتی جاتی ہے حتیٰ کہ پہلے کی سیکھی ہوئی باتیں بھی بھولنے لگتا ہے۔ اعضاء مضمحل ہونے لگتے ہیں اور قد بڑا ہونے کے باوجود بچوں کی سی باتیں، بچوں کی سی ضدیں اور بچوں کی سی حرکات کرنے لگ جاتا ہے حتیٰ کہ اسے تن بدن کا بھی ہوش نہیں رہتا۔ حالانکہ غذا وہی کھاتا ہے جو بچپن میں کھایا کرتا تھا یا اس سے بھی اچھی غذائیں کھاتا ہے پھر اسے موت کا کڑوا گھونٹ بھی پینا پڑتا ہے۔ اَرذل العمر سے پناہ :۔ انسان نے کبھی سوچا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ یا اس سے کیا نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے ؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی ایسی قادر اور حکیم ہستی موجود ہے جو اپنی منشا کے مطابق انسان پر ایسے تغیرات وارد کرتی اور کرسکتی ہے اور اللہ کے سوا کوئی ایسا الٰہ نہیں جو ان تغیرات کو روک سکتا ہو۔ ہاں اگر اللہ چاہے تو اس ارذل العمر میں بھی انسان کو ایسی ذلت سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی زندگی سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ (بخاری، کتاب التفسیر) اور ایسی عمر سے بچاؤ کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ ایسا وقت آنے سے پہلے ہی موت دے دے۔ دوسرے یہ کہ ایسا وقت آنے پر بھی تندرست اور حواس کو برقرار رکھے اور اللہ ان دونوں باتوں پر قادر ہے۔