وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ
جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب بھی وہ مجھے پکارے قبول کرتا ہوں (١) اس لئے لوگوں کو بھی چاہیے وہ میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھتیں یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے۔
[٢٣٨۔ ١] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض لوگوں نے پوچھا تھا کہ ہمارا پروردگار اگر دور ہے تو ہم اسے بلند آواز سے پکارا کریں اور اگر قریب ہے تو آہستہ آواز سے پکارا کریں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو بتلا دیا کہ میں تمہارے بالکل قریب ہوں۔ حتیٰ کہ تمہاری رگ جان سے بھی قریب ہوں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے صرف ان کے سوال کے جواب پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اور بھی کئی باتیں ارشاد فرما دیں جو انسانی ہدایت کے لیے ضروری تھیں اور جن سے شرکیہ عقائد کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ مثلاً یہ کہ جب کوئی شخص مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی پکار یا دعا کو صرف سنتا ہی نہیں بلکہ شرف قبولیت بھی بخشتا ہوں اس سے ان لوگوں کے باطل خیال کارد ہوگیا جو کہتے ہیں کہ اللہ ہم گنہگاروں کی دعا کب سنتا اور قبول کرتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہم کسی بزرگ اور اللہ کے پیارے کی معرفت اللہ سے اپنی حاجات طلب کریں۔ اس جواب میں عمومیت سے یہ وضاحت ہوگئی کہ جیسے اللہ اپنے پیاروں کی سنتا ہے ویسے ہی اپنے گنہگاروں کی بھی سنتا اور اسے شرف قبولیت بخشتا ہے۔ دوسری وضاحت یہ فرمائی کہ بندے میرا حکم بجا لائیں۔ مجھی سے مانگیں، دوسروں سے نہ مانگیں۔ کیونکہ پکار یا دعا بھی اصل عبادت ہے اور تیسری یہ کہ میرے متعلق اس بات کا یقین بھی رکھیں کہ میں ان کی دعا ضرور قبول کروں گا اور یہی ہوشمندی، سمجھداری اور ان کے فائدے کی بات ہے۔ دعاکی قبولیت کی شرائط وآداب:۔ واضح رہے کہ دعا کی قبولیت کے کچھ آداب ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ حرام خور کی دعا قبول نہیں ہوتی اور اس بات کی صراحت احادیث صحیحہ میں موجود ہے۔ دوسری یہ کہ وہ دعا ممکنات سے ہو۔ مثلاً اگر ایک غریب آدمی جسے امور سیاست کی خبر تک نہ ہو یہ دعا کرنے لگے کہ یا اللہ مجھے اس ملک کا بادشاہ بنا دے تو ظاہر ہے کہ ایسی دعا قبول نہ ہوگی۔ نہ ہی کوئی ایسی دعا کرنی چاہیے جس کا تعلق قطع رحم یا کسی گناہ کے کام سے ہو۔ تیسری یہ دعا کی قبولیت کا بھی اللہ کے ہاں ایک مقرر وقت ہوتا ہے۔ لہٰذا اس سلسلہ میں انسان کو نہ جلد بازی کرنی چاہیے اور نہ مایوس ہونا چاہیے کیونکہ بعض دفعہ دعا کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اس سے کوئی نازل ہونے والی مصیبت دور کردی جاتی ہے اور چوتھی یہ کہ جو دعا کی جائے پورے خلوص نیت سے اور تہ دل سے کی جائے۔ بے توجہی سے اور عادتاً دعا کرنے سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا اور پانچویں یہ کہ دعا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کے بعد اپنی حاجت کے لیے دعا کی جائے اور چھٹے یہ کہ اگر اسے اپنی دعا قبول ہوتی نظر نہ آ رہی ہو تو بھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ صرف اللہ سے دعا کرنے اور کرتے رہنے کا حکم ہے۔ اس کی قبولیت بسا اوقات اللہ تعالیٰ کی اپنی حکمتوں کے تابع ہوتی ہے۔ مثلاً ایک شخص کی دعا کی قبولیت سے کسی دوسرے شخص یا زیادہ لوگوں کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہو تو اللہ کی حکمت کا تقاضا یہی ہوگا کہ اسے قبول نہ کرے تاہم ایسی دعا کا یہ فائدہ ضرور ہوگا کہ اس کے نامہ اعمال میں دعا مانگنے کی نیکی لکھی جائے گی اور اس کا اجر اسے آخرت میں مل جائے گا یا اس پر آنے والی کوئی بیماری یا مصیبت اٹھا لی جاتی ہے۔ پھر بعض اوقات ایسے ہوتے ہیں جن میں دعا جلد قبول ہوتی ہے۔ مثلاً لیلۃ القدر میں یا سجدہ کے وقت یا جمعہ کے دن اور ان کی تفصیل کتب احادیث میں موجود ہے۔ پھر کچھ حالات بھی ایسے ہوتے ہیں جن میں دعا فوراً قبول ہوتی ہے۔ مثلاً مضطر اور مصیبت کے مارے کی دعا، یا مظلوم کی ظالم کے حق میں بددعا یا والدین کی اپنی اولاد کے حق میں بددعا۔ اس لیے کہ عادتاً والدین اپنی اولاد کے ہمیشہ خیر خواہ ہوتے ہیں۔ وہ اپنی اولاد کے حق میں بددعا اسی وقت کرسکتے ہیں جبکہ اولاد کی طرف سے انہیں کوئی انتہائی دکھ پہنچا ہو۔ رہی اللہ کو بلند آواز یا آہستہ آواز سے پکارنے کی بات تو اس آیت سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ اللہ قریب ہے۔ لہٰذا اسے آہستہ آواز سے پکارنا چاہیے۔ تاہم اس میں بھی انسان کی نیت ارادہ کا بہت دخل ہے اور حسن نیت سے ہی عمل میں خوبی پیدا ہوتی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ مکی دور میں ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نکلے تو دیکھا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آہستہ اور پرسوز آواز سے نماز میں قرآن پاک پڑھ رہے ہیں۔ آپ آگے گئے تو دیکھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بلند اور گرجدار آواز سے پڑھ رہے ہیں۔ صبح آپ نے پہلے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے دریافت فرمایا کہ تم اتنی آہستہ آواز سے قرآن پاک کیوں پڑھ رہے تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ اس لیے کہ میرا رب میرے نزدیک ہے۔ پھر آپ نے عمر رضی اللہ عنہ سے بلند آواز سے قرآن پڑھنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ میں سونے والوں کو جگاتا ہوں اور شیطان کو بھگاتا ہوں۔ آپ نے دونوں کے جواب سن کر دونوں کی ہی تحسین فرمائی۔ اور بعض دفعہ حالات کا یہ تقاضا ہوتا ہے کہ اللہ کا نام بلند آواز سے پکارا جائے جیسے حج و عمرہ کے درمیان تلبیہ پکارنا یا تکبیرات عیدین یا جہاد کے سفر میں اللہ اکبر کہنا یا دوران جنگ یا کفار کے مقابلہ اور ان کا جی جلانے کے لیے بلند آواز سے نعرہ لگانا ایسے تمام مواقع پر اللہ کو بلند آواز سے ہی پکارنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔