وَأَلْقَىٰ فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَن تَمِيدَ بِكُمْ وَأَنْهَارًا وَسُبُلًا لَّعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ
اور اس نے زمین میں پہاڑ گاڑ دیئے ہیں تاکہ تمہیں لے کر ہلے نہ (١) اور نہریں اور راہیں بنادیں تاکہ تم منزل مقصود کو پہنچو (٢)۔
[١٥] پہاڑوں کے فوائد :۔ رواسی ایسے سلسلہ ہائے کوہ کو کہا جاتا ہے جو سینکڑوں میلوں تک پھیلے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کی تخلیق کا مقصد اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ زمین ہچکولے نہ کھائے اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین کو پیدا کیا گیا تو وہ ڈگمگاتی اور ہچکولے کھاتی تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس پر پہاڑ رکھ دیئے۔ (ترمذی، ابو اب التفسیر، سورۃ الناس) جس کا مطلب یہ ہے کہ زمین پر پہاڑوں کو کسی خاص ترتیب اور حکمت سے پیدا کیا اور رکھا گیا ہے۔ کہیں اونچے اونچے پہاڑ ہیں۔ کہیں پھیلاؤ زیادہ ہے لیکن بلندی کم ہے۔ کہیں دور دور تک پہاڑوں کا نام و نشان ہی نہیں ملتا اور یہ سب کچھ زمین کے توازن (Balance) کو قائم رکھنے کے لیے کیا گیا ہے۔ اور جدید تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ پہاڑوں کا وجود زلزلوں کو روکنے میں بڑا ممد ثابت ہوا ہے۔ گویا پہاڑوں کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ انسان زمین پر سکون سے رہ سکتا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھئے جیسے ایک خالی کشتی پانی میں ادھر ادھر ہلتی اور ڈگمگاتی رہتی ہے۔ پھر جب اس میں بوجھ ڈال دیا جائے تو اس کا ہلنا جلنا بند ہوجاتا ہے۔ ہماری زمین بھی جدید نظریہ ہیئت کے مطابق فضا میں تیزی سے تیر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر متناسب اور متوازن پہاڑ ٹھونک کر اس کی ڈگمگاہٹ کو بند کردیا۔ واضح رہے کہ زمین کی سورج کے گرد گردش کا مسئلہ ایک اختلافی مسئلہ ہے جو آج تک چار دفعہ بدل چکا ہے۔ بہرحال موجودہ تحقیق یہی ہے کہ زمین سورج کے گرد گردش کر رہی ہے۔ کل کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے (مزید تفصیل کے لیے دیکھئے میری تصنیف ''الشمس والقمر بحسبان'' نیز اس گردش کے مسئلہ کا زمین کے ہچکولے کھانے کے مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں۔ پھر انھیں پہاڑوں سے اللہ نے دریاؤں کو رواں کیا۔ چنانچہ دنیا کے بیشتر دریاؤں کے منابع پہاڑوں ہی میں واقع ہوئے ہیں۔ پھر انہی پہاڑوں سے ندی نالے نکلتے ہیں اور پھر دریاؤں کے ساتھ ساتھ راستے بھی بنتے چلے جاتے ہیں۔ ان قدرتی راستوں کی اہمیت پہاڑی علاقوں میں تو بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اگرچہ میدانی علاقوں میں بھی کچھ کم اہم نہیں ہیں۔