خَلَقَ الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ
اس نے انسان کو نطفے سے پیدا کیا پھر وہ صریح جھگڑالو بن بیٹھا (١)۔
[٦] خصیم مبین سے مراد؟ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ انسان جو ایک ننھی سی پانی کی بوند سے پیدا ہوا ہے نفخہ روح خداوندی کی بدولت وہ بحث و استدلال کا ڈھنگ سیکھ جاتا ہے اور اپنے مدعا پر طرح طرح کے دلائل پیش کرنے کے قابل بن جاتا ہے۔ اس مطلب میں قدرت خداوندی کا اظہار مقصود ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی اوقات کی طرف نظر نہیں کرتا کہ وہ ایک حقیر سی پانی کی بوند سے پیدا کیا گیا ہے پھر جب اس میں کچھ عقل آتی ہے تو حق کے مقابلہ میں کٹ حجتیاں پیش کرنے لگ جاتا ہے حتیٰ کہ اپنے خالق اللہ تعالیٰ کے بارے میں بھی جھگڑا کرنے سے باز نہیں آتا اور اس مطلب سے مقصود انسان کی سرکشی کا اظہار ہے اور اسی مطلب کی تائید سورۃ یٰسین کی آیت نمبر ٧٧، ٧٨ سے بھی ہوتی ہے۔