يُنَزِّلُ الْمَلَائِكَةَ بِالرُّوحِ مِنْ أَمْرِهِ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ أَنْ أَنذِرُوا أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنَا فَاتَّقُونِ
وہی فرشتوں کو اپنی وحی (١) دے کر اپنے حکم سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے (٢) اتارتا ہے کہ تم لوگوں کو آگاہ کر دو کہ میرے سوا اور کوئی معبود نہیں، پس تم مجھ سے ڈرو۔
[٣] روح کے مختلف معانی :۔ روح کا لفظ قرآن میں مندرجہ ذیل تین معنوں میں استعمال ہوا ہے : ١۔ روح بمعنی وہ لطیف جوہر جو جاندار میں موجود ہے اور جس کی وجہ سے اس جاندار کے اعضاء و جوارح حرکت کرتے ہیں اور جب یہ روح نکل جاتی ہے تو جاندار بے جان ہوجاتا یا مر جاتا ہے جس طرح اس روح کی حقیقت کا علم انسان کو بہت کم دیا گیا ہے اسی طرح روح کے معانی پر احاطہ کرنا بھی انسان کی دسترس سے باہر ہے۔ (١٧: ٨٥) ٢۔ روح بمعنی فرشتہ جیسے فرمایا :﴿فَاَرْسَلْنَآ اِلَیْہَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَہَا بَشَرًا سَوِیًّا ﴾ (۱۷:۱۹)(یعنی ہم نے مریم کی طرف اپنی روح یا فرشتہ بھیجا جو ایک تندرست انسان کی شکل بن گیا) روح سے مراد عام فرشتہ بھی ہوسکتا ہے اور جبرئیل علیہ السلام بھی۔ مگر جب روح القدس یا روح الامین کا لفظ آئے تو اس سے مراد صرف سیدنا جبرئیل علیہ السلام ہوں گے۔ ٣۔ روح بمعنی وہ پیغام جو فرشتہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لائے اور اس سے مراد وحی بھی ہوسکتا ہے اور سارا قرآن بھی۔ روح کے ساتھ جب من الامر یامن امر کے الفاظ آئیں تو اس سے مراد وحی ہی ہوتی ہے جیسا کہ اس مقام پر ہے بالروح من امرہ اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا ﴿وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا ﴾اس مقام پر روح سے مراد پورا قرآن ہے نیز ایک دوسرے مقام پر وحی یا رسالت کے معنوں میں اس طرح آیا ہے﴿یُلْقِی الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِہٖ عَلٰی مَنْ یَّشَاءُ مِنْ عِبَادِہٖ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنا پیغام نازل کرتا ہے۔ اور اس مقام پر جو وحی کے لیے روح کا لفظ استعمال فرمایا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح جسمانی زندگی کے لیے روح کی ضرورت ہوتی ہے کہ اگر روح نہ رہے تو زندگی ختم ہوجاتی ہے۔ اسی طرح صالح طرز زندگی یا نظام حیات کے لیے وحی الٰہی کی ضرورت ہوتی ہے جس کے بغیر صالح نظام قائم ہو ہی نہیں سکتا اور اگر وحی الٰہی کے مطابق عمل نہ کیا جائے تو اس نظام کا شیرازہ بکھر جاتا ہے اور اس کی جگہ کوئی اور فاسد نظام رائج ہوجاتا ہے۔ [ ٤] الملئکۃ جمع کا صیغہ ہے مگر اس سے مراد صرف ایک فرشتہ ہے یعنی جبرئیل علیہ السلام کیونکہ وہی پیغامبر اور پیغام رسانی کرنے والے فرشتوں کے سردار ہیں اور محاورۃ عرب میں سردار رئیس کے لیے جمع کا صیغہ استعمال کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں اس کی اور بھی نظائر موجود ہیں اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بھی یہی قول ہے۔ اس جملہ میں مشرکین مکہ کے دو اعتراضات کا جواب آگیا ہے ایک تو وہی اعتراض کہ اگر یہ نبی سچا ہے تو ہم پر عذاب کیوں نہیں آیا اور اس سے ان کی مراد نبی کی تکذیب ہوتی تھی۔ ان کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ اگر اللہ نے کسی کو نبی بنانا ہی تھا تو کیا مکہ اور طائف کے سردار مارے گئے تھے بس یہی آدمی اللہ کو نبوت کے لیے ملا تھا (سورہ زخرف آیت ٣١) اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب یہ دیا کہ مجھے اس معاملہ میں تمہارے مشورہ کی ضرورت نہیں۔ میں خود ہی بہتر سمجھتا ہوں کہ نبوت کا مستحق کون ہے۔ اور اس کے لیے کن صفات کا ہونا ضروری ہے۔ لہٰذا میں جسے چاہتاہوں اس فضل سے نوازتا ہوں تاکہ وہ لوگوں کو متنبہ کریں کہ الٰہ صرف میں ہی ہوں لہٰذا تمہیں صرف مجھی سے ڈرنا چاہیے۔