سورة ابراھیم - آیت 35

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَٰذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَن نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

(ا براہیم کی یہ دعا بھی یاد کرو) جب انہوں نے کہا اے میرے پروردگار! اس شہر کو امن والا بنا دے (١) اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے پناہ دے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣٨] مکہ کو پر امن شہر بنانے کے لئے ابراہیم علیہ السلام کی دعا :۔ چند آیات پہلے مشرک رؤسائے قریش کا ذکر ہوا کہ کس طرح وہ اپنے ساتھ اپنی قوم کو بھی ہلاکت کے گڑھے تک لے گئے تھے۔ یہ قریش چونکہ اپنے آپ کو سنت ابراہیم علیہ السلام کا پیروکار سمجھتے اور کہلواتے تھے لہٰذا سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا ذکر بیان کرکے انھیں بتایا جارہا ہے کہ وہ شرک سے کس قدر بیزار تھے۔ نیز یہ کہ تم ان کی اتباع کا دعویٰ کیسے کرتے ہو۔ انہوں نے تو اس شہر مکہ کو پرامن بنانے کے لیے دعا ہی یہ کی تھی کہ ’’اے میرے پروردگار مجھے بھی اور میری اولاد کو بھی شرک کی نجاستوں اور بتوں کی پوجا پاٹ سے محفوظ رکھنا۔ کیونکہ اکثر لوگ انہی بتوں کی پوجا پاٹ کی وجہ سے گمراہ ہوئے ہیں۔ میرا متبع تو صرف وہ ہے جس نے میرے طریقہ توحید کو تسلیم کیا اور جو بتوں کا پرستار ہے اس سے میرا کوئی تعلق نہیں اور جس نے میری نافرمانی کی اور توحید کاراستہ چھوڑ کر بتوں کی نجاست میں پھنس گیا وہ سزا کا مستحق تو ضرور ہے مگر اے پروردگار! تو غفور رحیم ہے چاہے تو انھیں بھی معاف کر دے۔‘‘ مشرکوں کے حق میں آپ کی ایسی دعا محض آپ کے نرم دل اور رحم دل ہونے کی وجہ سے تھی مگر جب آپ کو واضح طور پر معلوم ہوگیا کہ مشرک کی بخشش نہیں ہوسکتی تو آپ نے اپنے باپ کے حق میں بھی دعا مانگنا چھوڑ دی تھی۔ کہنے کو تو قریش مکہ اپنے آپ کو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی اولاد کہتے تھے اور ان کے دین کے متبع ہونے کا دعویٰ بھی کرتے تھے مگر ان میں کئی بنیادی قباحتیں آگئیں تھیں مثلاً: ١۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی تھی کہ یا اللہ اس شہر مکہ کو پرامن بنا دے اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا قبول بھی ہوگئی اور قریش مکہ اس کے پرامن شہر ہونے کی وجہ سے کئی طرح کے معاشی، معاشرتی اور سیاسی فائدے بھی اٹھا رہے تھے مگر ان کا اپنا یہ حال تھا کہ اسی پر امن شہر میں اللہ کے رسول اور مسلمانوں پر ظلم و ستم میں حد کردی تھی اور ان پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا۔ حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان مکہ چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ ٢۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دوسری دعا یہ تھی کہ یا اللہ مجھے اور میرے بیٹوں (یعنی اولاد) کو بتوں کی پرستش سے محفوظ رکھنا۔ لیکن قریش مکہ کی بت پرستی کی انتہا یہ تھی کہ خاص بیت اللہ میں تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے جن میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام کی تصاویر بھی تھیں اور ان کے ہاتھ میں فال کے تیر بھی پکڑائے گئے تھے۔ ٣۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اس بے آب و گیاہ میدان میں اپنی بیوی اور بچوں کو اس لیے لابسایا تھا کہ وہ خود اور آپ کی اولاد بیت اللہ شریف کو آباد رکھیں اور اس میں اللہ کی عبادت، طواف اور حج و عمرہ وغیرہ کیا کریں لیکن قریش نے مسلمانوں پر محض مشرک نہ ہونے کی بنا پر یہ پابندی لگا دی تھی کہ وہ نہ کعبہ میں نماز ادا کرسکتے اور نہ طواف کرسکتے ہیں اور نہ حج و عمرہ بجا لاسکتے ہیں۔ ٤۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی تھی کہ اے ہمارے پروردگار! مجھے، میرے والدین اور سب ایمان لانے والوں کو قیامت کے دن معاف کردینا۔ لیکن قریش مکہ قیامت کے دن پر اعتقاد ہی نہیں رکھتے تھے۔ ٥۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے واضح طور پر فرما دیا تھا کہ جو میری تابعداری کرے گا وہ تو یقیناً میرا ہے اور جو میری نافرمانی کرے گا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں اور قریش مکہ نے مندرجہ بالا سب امور میں سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی مخالفت تھی۔ بایں ہمہ وہ اپنے آپ کو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی اولاد اور ان کا متبع کہتے تھے۔