وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ اجْتُثَّتْ مِن فَوْقِ الْأَرْضِ مَا لَهَا مِن قَرَارٍ
اور ناپاک بات کی مثال ایسے درخت جیسی ہے جو زمین کے کچھ ہی اوپر سے اکھاڑ لیا گیا۔ اسے کچھ ثبات تو ہے نہیں (١)۔
[٣٣] خلافت اور دوسرے نظام ہائے حیات :۔ کلمہ طیبہ کے مقابلہ میں کلمہ خبیثہ (گندی بات) یعنی شرک و کفر کی مثال ایسے پودے سے دی گئی ہے جس کی سب صفات شجرہ طیبہ کے برعکس ہیں اس کی جڑ زمین کے اندر گہرائی تک نہیں جاتی بلکہ اوپر ہی اوپر زمین کے قریب ہی رہتی ہے کہ ہوا کا ایک تیز جھونکا آئے تو اسے بیخ و بن سے اکھاڑ کر پرے پھینک دے یہ مثال ہر باطل بات اور باطل نظام پر صادق آتی ہے۔ ہمارے ہاں جو مثل مشہور ہے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے، وہ اسی مضمون کا مصداق ہے۔ حدیث کی رو سے شجرہ خبیثہ سے مراد اندرائن کا پودہ ہے۔ (پنجابی تمہ) جس کا پھل سخت کڑوا ہوتا ہے یعنی جہاں بھی باطل نظام حیات رائج ہوگا۔ کڑوے برگ و بار ہی لائے گا۔ معاشرہ میں بدامنی، رشوت ایک دوسرے کے حقوق کا غصب کرنا، فساد، جان ومال یا آبرو وغیرہ کا محفوظ نہ رہنا۔ غرض کہ ایسے معاشرہ میں عوام کی بے چینی اور اضطراب بڑھتا جاتا ہے اور کئی طرح کے مسائل اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور اگر ان کا کوئی علاج سوچا جائے تو یہ مسائل اور پیچیدہ ہوتے اور بڑھتے جاتے ہیں کیونکہ اصل کا علاج تو کیا نہیں جاتا، ساری توجہ بس علامات پر ہی ہوتی ہے۔ اسلامی نظام حیات صرف ایک ہی طرز پر ہوتا ہے جسے خلافت بھی کہہ سکتے ہیں جبکہ باطل نظام لاتعداد ہوسکتے ہیں جو آئے دن بنتے اور بگڑتے رہتے ہیں حتیٰ کہ ان کا نام تک صفحہ ہستی سے مٹ جاتا ہے اور ایسے نظام ہر دور میں مختلف اور ایک سے زیادہ بھی رہے ہیں اور آج بھی پائے جاتے ہیں اس کی وجہ صرف یہی ہوتی ہے کہ ان کی بنیاد باطل یا شجرہ خبیثہ پر ہوتی ہے اور باطل کو کبھی استحکام نصیب نہیں ہوتا اور جب تک یہ قائم رہے اس کے برگ و بار کڑوے ہی ہوتے ہیں۔