وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ
اور جب تمہارے پروردگار نے تمہیں آگاہ (١) کردیا کہ اگر تم شکرگزاری کرو گے تو بیشک میں تمہیں زیادہ (٢) دونگا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو یقیناً میرا عذاب بہت سخت ہے (٣)
[٩] شکر اور اس کا فائدہ :۔ شکر یا احسان شناسی میں اللہ تعالیٰ نے یہ تاثیر رکھ دی ہے کہ بھلائی کو بحال رکھتی ہے بلکہ مزید بھلائیوں کو بھی اپنی طرف جذب کرتی ہے اور ناشکری یا احسان فراموشی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے احسان ناشناس سے پہلی نعمت بھی چھن جاتی ہے اور حالات مزید بدتر پیدا ہوجاتے ہیں اور یہ نتائج اس دنیا سے گذر کر آخرت تک بھی چلتے ہیں۔ اس مضمون کی تفصیل کے لیے ہم یہاں دو احادیث درج کرتے ہیں :۔ ١۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بنی اسرائیل میں تین آدمی تھے ایک کوڑھی، ایک گنجا اور ایک اندھا۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں آزمانا چاہا اور ان کی طرف ایک فرشتہ بھیجا۔ فرشتہ پہلے کوڑھی کے پاس آیا اور کہنے لگا، ”تم کیا چاہتے ہو؟“ ’’اچھا رنگ اور اچھی جلد، کیونکہ لوگ مجھ سے نفرت و کراہت کرتے ہیں‘‘ فرشتے نے اس پر اپنا ہاتھ پھیرا تو اس کا رنگ اور جلد درست ہوگئی۔ پھر فرشتے نے پوچھا، ”تمہیں کون سا مال پسند ہے؟“ وہ کہنے لگا”اونٹ“فرشتے نے اسے ایک دس ماہ کی اونٹنی مہیا کردی اور کہا ’’اللہ اس میں برکت دے گا‘‘ پھر وہ گنجے کے پاس آیا اور کہا ’’تم کیا چاہتے ہو؟‘‘اس نے کہا ’’یہی کہ میرا گنج جاتا رہے اور اچھے بال اگ آئیں‘‘ فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا وہ تندرست ہوگیا اور اچھے بال اگ آئے۔ پھر اس سے پوچھا ’’تمہیں کون سا مال پسند ہے؟‘‘ گنجے نے کہا ”گائیں“ چنانچہ فرشتے نے اسے ایک حاملہ گائے مہیا کردی اور کہا ”اللہ اس میں برکت دے گا“ پھر فرشتہ اندھے کے پاس آیا اور پوچھا ”تم کیا چاہتے ہو؟“اس نے کہا ’’یہی کہ یہ میری بینائی مجھ کو مل جائے“فرشتے نے اس کی آنکھوں پر ہاتھ پھیرا تو وہ بینا ہوگیا۔ پھر اس سے پوچھا ”تمہیں کون سا مال پسند ہے؟“ اس نے کہا ”بکریاں“ چنانچہ فرشتے نے اسے ایک حاملہ بکری مہیا کردی اور کہا ”اللہ اس میں برکت دے گا“کچھ مدت گزرنے پر کوڑھی کے پاس اونٹوں کا، گنجے کے پاس گائے کا اور اندھے کے پاس بکریوں کا بہت بڑا ریوڑ بن چکا تھا۔ اب فرشتہ پھر ان کے پاس (انسانی صورت میں) آیا۔ پہلے کوڑھی کے پاس گیا اور کہا ”میں محتاج آدمی ہوں میرا سب سامان جاتا رہا اب اللہ کی اور اس کے بعد تیری مدد کے بغیر میں کہیں پہنچ بھی نہیں سکتا۔ میں تم سے اس اللہ کے نام پر سوال کرتا ہوں جس نے تیرا رنگ اور جلد اچھی کردی اور تجھے بہت سا مال دیا کہ ایک اونٹ مجھے دے دو تاکہ میں اپنے ٹھکانے پر پہنچ سکوں‘‘ وہ کہنے لگا ”میں نے تو بہت سے لوگوں کا قرض دینا ہے“فرشتے نے کہا ’’میں تجھے پہچانتا ہوں تو کوڑھی تھا لوگ تجھ سے کراہت کرتے تھے اور تو محتاج تھا اور اللہ نے تم پر مہربانی کی اور یہ سب کچھ عطا کیا‘‘ کوڑھی کہنے لگا ’’واہ مجھے تو یہ سب کچھ باپ دادے کی وراثت سے ملا ہے‘‘ فرشتے نے کہا:’’اگر تم نے جھوٹ بولا ہے تو اللہ تجھے تیری پہلی حالت میں لوٹا دے‘‘ پھر وہ گنجے کے پاس آیا۔ اس سے بھی بالکل ویسے ہی سوال و جواب ہوئے جیسے کوڑھی سے ہوئے تھے اسے بھی فرشتے نے بالآخر یہی کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تجھے اپنی پہلی حالت میں پھیردے۔ اس کے بعد فرشتہ اندھے کے پاس آیا اور ویسے ہی سوال کیا جیسے کوڑھی اور گنجے سے کیا تھا۔ اندھا یہ سوال سن کر کہنے لگا ’’واقعی میں اندھا تھا۔ اللہ نے مجھے بینائی بخشی۔ میں محتاج تھا اللہ نے مجھے مالدار کردیا۔ اب تم نے مجھ سے اسی اللہ کے نام پر سوال کیا ہے جو کچھ چاہتے ہو لے لو میں روکوں گا نہیں۔‘‘ فرشتے نے کہا، (میں محتاج نہیں فرشتہ ہوں) اپنی بکریاں اپنے ہی پاس رکھو۔ اللہ نے تم تین آدمیوں کو آزمایا تھا۔ اللہ تجھ سے تو خوش ہوگیا اور تیرے دونوں ساتھیوں (کوڑھی اور گنجے) سے ناراض ہوا۔ (بخاری، کتاب الانبیاء۔ باب ما ذکربنی عن اسرائیل حدیث ابرص واقرع واعمیٰ ) ٢۔ ناشکری کا انجام :۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ''مجھے دوزخ دکھائی گئی۔ اس میں عورتیں زیادہ تھیں جو کفر کرتی ہیں” صحابہ نے کہا “کیا وہ اللہ کا کفر کرتی ہیں؟”فرمایا : “نہیں وہ خاوند کی ناشکری کرتی ہیں اور احسان فراموش ہوتی ہیں۔ اگر تم کسی عورت سے عمر بھر بھلائی کرو۔ پھر وہ تم سے کوئی ناگوار بات دیکھے تو کہہ دے گی کہ میں نے تو تجھ سے کبھی کوئی بھلائی دیکھی ہی نہیں'' (بخاری، کتاب الایمان۔ باب کفران العشیر وکفر دون کفر)