وَالَّذِينَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً وَيَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ
اور وہ اپنے رب کی رضامندی کی طلب کے لئے صبر کرتے ہیں (١) اور نمازوں کو برابر قائم رکھتے ہیں (٢) اور جو کچھ ہم نے انھیں دے رکھا ہے اسے چھپے کھلے خرچ کرتے ہیں (٣) اور برائی کو بھی بھلائی سے ٹالتے ہیں (٤) ان ہی کے لئے عاقبت کا گھر ہے (٥)۔
[٣٠] یعنی راہ حق میں پیش آنے والی مشکلات کو ثابت قدمی کے ساتھ برداشت کیا اور اللہ تعالیٰ کے احکام و حدود میں اللہ کی رضا کی خاطر اپنے نفس کی خواہشات پر کنٹرول کیا۔ اس لحاظ سے ایک مومن کی ساری زندگی ہی دراصل صبر کی زندگی ہوتی ہے۔ [٣١] یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے خواہ وہ امیر ہو یا غریب ہو۔ خوشحال ہو یا تنگ دست ہو۔ ہر ایک کو اپنی اپنی حیثیت کے مطابق اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہیے۔ قرآن کی بعض دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ پوشیدہ طور پر صدقہ کرنا علانیہ صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔ غالباً اسی لیے پہلے پوشیدہ صدقہ کا ذکر کیا گیا۔ پھر صدقہ کی دو بڑی قسمیں ہیں۔ ایک فرضی یعنی زکوٰۃ دوسرے نفلی۔ علماء کہتے ہیں کہ فرضی صدقہ علانیہ کرنا بہتر ہے۔ تاکہ دوسروں کو بھی رغبت پیدا ہو اور نفلی صدقات پوشیدہ طور پر کرنے چاہئیں پھر رزق سے مراد صرف مال و دولت ہی نہیں اللہ کی ہر نعمت رزق ہے جو انسان کی جسمانی یا روحانی تربیت میں کارآمد ہو۔ اس لحاظ سے علم دین، پاکیزہ فنون اور صحت وغیرہ سب رزق میں شامل ہیں اور اللہ کی راہ میں ان میں سے بھی خرچ کرنا ضروری ہے یہ مضمون بہت طویل ہے اور قرآن میں جابجا مذکور ہے۔ اس لیے یہاں اسی پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ [٣٢] یَدْرَءُ وْنَ کا لغوی معنی دور ہٹانا اور پرے کرنا ہے۔ اس لحاظ سے اس جملہ کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ جب ان سے کوئی برا کام ہوجاتا ہے تو بعد میں اچھے کام کرکے تلافی مافات کردیتے ہیں۔ کیونکہ نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ جب ان سے کوئی برائی کرے تو اس کا جواب برائی سے نہیں بلکہ بھلائی سے دیتے ہیں اور عفو و درگزر سے کام لیتے ہیں اور اس بارے میں بھی بہت سی احادیث وارد ہیں۔ مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بھلائی کا بدلہ بھلائی سے دے بلکہ وہ ہے کہ اگر دوسرا اسے برے سلوک سے قطع کرنے کی کوشش کرے تو وہ اچھا سلوک کرکے اسے جوڑے رکھنے کی کوشش کرے۔ (بخاری، کتاب الادب، باب لیس الواصل بالمکافئی ) اور یہ بات صرف رشتہ داروں سے مختص نہیں بلکہ ہر شخص کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرنا چاہیے۔