قَالُوا أَإِنَّكَ لَأَنتَ يُوسُفُ ۖ قَالَ أَنَا يُوسُفُ وَهَٰذَا أَخِي ۖ قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا ۖ إِنَّهُ مَن يَتَّقِ وَيَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ
انہوں نے کہا کیا (واقعی) تو ہی یوسف (علیہ السلام) ہے (١) جواب دیا کہ ہاں میں یوسف (علیہ السلام) ہوں اور یہ میرا بھائی ہے اللہ نے ہم پر فضل و کرم کیا بات یہ ہے کہ جو بھی پرہیزگاری اور صبر کرے تو اللہ تعالیٰ کسی نیکوکار کا اجر ضائع نہیں کرتا (٢)۔
[٨٧] بھائیوں کا چونک اٹھنا اور اظہار ندامت :۔ شاہ مصر کے اس سوال پر وہ ایک دم چونک اٹھے کہ اسے ان باتوں کی کیسے خبر ہوگئی؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ شاہ مصر یوسف (علیہ السلام) ہی ہو؟ پھر اپنی اس حیرت و استعجاب کو دور کرنے کے لیے شاہ مصر سے سوال کیا:’’ کیا آپ یوسف (علیہ السلام ) ہی تو نہیں؟‘‘ شاہ مصر نے جواب دیا : ’’ہاں میں یوسف ہی ہوں اور جسے میں نے پچھلی مرتبہ روک لیا تھا وہ میرا چھوٹا بھائی بن یمین ہے، جو اب میرے پاس ہے۔ دیکھ لو اللہ نے ہم پر کیسی رحمت فرمائی اور ہم دونوں بھائیوں کو طویل جدائی کے بعد ملا دیا۔ اور ذلت کو عزت سے، تکلیف کو راحت سے، اور تنگی کو آرام و سکون سے بدل دیا۔ جس بھائی کو تم نے کنویں میں ڈال دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آج اسے پورے ملک مصر کی حکومت عطا فرما دی ہے اور اللہ صبر کرنے والوں اور اس سے ڈرنے والوں کو ایسے ہی اپنی نعمتوں سے نوازتا ہے۔‘‘