قَالَ اجْعَلْنِي عَلَىٰ خَزَائِنِ الْأَرْضِ ۖ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ
(یوسف) نے کہا آپ مجھے ملک کے خزانوں پر معمور کر دیجئے (١) میں حفاظت کرنے والا اور باخبر ہوں (٢)
[٥٤] سیدنا یوسف نے شاہ مصر سے کس چیز کا مطالبہ کیا تھا :۔ اس کے جواب میں سیدنا یوسف علیہ السلام نے کہا کہ پھر آپ مجھے ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بنا دیجئے اور یہ بات تو آپ لوگ بھی سمجھ چکے ہیں کہ میں اس نظم و نسق کو پوری احتیاط کے ساتھ چلانے کی اہلیت رکھتا ہوں۔ بادشاہ سے آپ کے اس مطالبہ سے متعلق چند امور غور طلب ہیں : بعض مفسرین نے خزائن الارض کے مطالبہ سے یہ سمجھا کہ آپ نے محکمہ مال کے افسر اعلیٰ یا وزیرخزانہ کا عہدہ طلب کیا تھا۔ جو ملکی معیشت سے تعلق رکھتا تھا۔ کیونکہ آپ نے خواب کی جو تعبیر بتلائی تھی وہ اسی شعبہ سے تعلق رکھتی تھی اور آئندہ جو برادران یوسف کے مصر میں آنے کا ذکر ہے۔ وہ بھی اسی شعبہ سے تعلق ہے لیکن اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ آیا ایک نبی کسی کافرانہ حکومت کا کل پرزہ بن کر رہ سکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ ایک نبی کے لیے کسی بھی صورت یہ شایان شان نہیں کہ وہ اس بات کو گوارا کرلے۔ لہٰذا یہاں خزائن الارض سے مراد مکمل اقتدار یا ملک کے سیاہ و سفید کا مختار ہونا ہے۔ بالخصوص اس لحاظ سے کہ ان الفاظ میں اس معنی کی بھی گنجائش موجود ہے اور اس لیے بھی کہ اس سے اگلی آیت میں واضح طور پر یہ الفاظ موجود ہیں۔ ﴿وَکَذٰلِکَ مَکَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ یَتَبَوَّاُ مِنْہَا حَیْثُ یَشَاءُ ﴾ لہٰذا عَلٰی خَزَائِنِ الاَرْضِ سے محض وزارت خزانہ یا شعبہ مالیات مراد لینا درست نہیں۔ طلب امارت کس صورت میں مذموم ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ طلب امارت شرعاً ممنوع اور مذموم چیز ہے تو پھر سیدنا یوسف علیہ السلام نے ایسا مطالبہ کیوں کیا تھا ؟ بالخصوص اس صورت میں جبکہ بادشاہ کافر بھی تھا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ طلب امارت صرف اس صورت میں ممنوع اور مذموم ہے جبکہ اس کا جذبہ محرکہ یا مقصود صرف حب جاہ و مال ہو۔ لیکن جہاں ملک بھر کا انتظام درہم برہم ہو رہا ہو یا کسی بڑے مفسدہ کا خطرہ موجود ہو اور مطالبہ کرنے والے کو یہ بھی علم ہو کہ کوئی دوسرا اس کے سوا یہ بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں تو اس وقت معاملہ بالکل برعکس ہوجاتا ہے اور اس وقت مطالبہ نہ کرنا مذموم بن جاتا ہے۔ رہی یہ بات کہ سیدنا یوسف علیہ السلام نے ایک کافر بادشاہ سے مطالبہ کیوں کیا تھا تو اس کا جواب پہلے گزر چکا کہ یہ مطالبہ محض طلب امارت کا نہ تھا بلکہ پورے اقتدار کا مطالبہ تھا۔ یعنی ملک کا پورے کا پورا اقتدار ہی سیدنا یوسف علیہ السلام کے حوالہ کردیا جائے۔ چنانچہ بادشاہ نے اپنے درباریوں سے اس مطالبہ کے متعلق مشورہ کیا۔ جس میں یہی طے ہوا کہ مکمل اقتدار سیدنا یوسف علیہ السلام کے حوالہ کردیا جائے اس لیے کہ سات سالہ قحط پر کنٹرول اور ملکی معیشت کو تباہی سے بچانے کے لیے انھیں کوئی دوسرا آدمی نظر نہیں آرہا تھا۔ اور اس مشورہ پر عمل درآمد کے بعد بادشاہ صرف برائے نام بادشاہ رہ گیا تھا۔ جملہ اختیارات سیدنا یوسف علیہ السلام کی طرف منتقل ہوگئے تھے۔ لہٰذا یہ طلب امارت نہیں بلکہ حق کی فتح تھی۔ چنانچہ بعد میں ملک بھر کا پورا انتظام سیدنا یوسف علیہ السلام نے اپنی مرضی کے مطابق چلایا تھا اور قرآن نے بھی اس منتقلی اقتدار کے بعد بادشاہ کے لیے ملک کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ (نیز دیکھئے سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر ٨٢ کا حاشیہ)