سورة یوسف - آیت 9

اقْتُلُوا يُوسُفَ أَوِ اطْرَحُوهُ أَرْضًا يَخْلُ لَكُمْ وَجْهُ أَبِيكُمْ وَتَكُونُوا مِن بَعْدِهِ قَوْمًا صَالِحِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

یوسف کو مار ہی ڈالو اسے کسی (نامعلوم) جگہ پھینک دو کہ تمہارے والد کا رخ صرف تمہاری طرف ہی ہوجائے۔ اس کے بعد تم نیک ہوجانا (١)۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٨] صالحین کے دو مفہوم :۔ باپ کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کی ترکیب انہوں نے یہ سوچی کہ کسی طرح یوسف کو غائب ہی کردیا جائے یا تو اسے مار ہی ڈالا جائے۔ یا پھر کسی دور دراز مقام میں اسے پہنچا دیا جائے تاکہ وہاں سے وہ واپس نہ آسکے۔ اس طرح ہی وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکتے تھے۔ اب چونکہ وہ ایک جلیل القدر نبی کی اولاد بھی تھے۔ اس لیے ایسے فعل کے ارتکاب پر ان کا ضمیر انھیں ملامت بھی کر رہا تھا۔ اس کا حل یہ سوچا گیا کہ پہلے اپنی خواہش نفس تو پوری کرلیں۔ بعد میں تو بہ کرکے نیک بن جائیں گے۔ یہی وہ شیطانی چالیں تھیں جن کے متعلق یعقوب علیہ السلام کو پہلے سے ہی اندیشہ تھا۔ ﴿وَتَکُوْنُوْا مِنْ بَعْدِہٖ قَوْمًا صٰلِحِیْنَ﴾کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب تم لوگ یوسف کو ٹھکانے لگا دو گے تو اس کے بعد از خود ہی تم لوگ اپنے باپ کو اچھے لگنے لگو گے۔