سورة ھود - آیت 116

فَلَوْلَا كَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِن قَبْلِكُمْ أُولُو بَقِيَّةٍ يَنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الْأَرْضِ إِلَّا قَلِيلًا مِّمَّنْ أَنجَيْنَا مِنْهُمْ ۗ وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا مَا أُتْرِفُوا فِيهِ وَكَانُوا مُجْرِمِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

پس کیوں نہ تم سے پہلے زمانے کے لوگوں میں سے ایسے اہل خبر لوگ ہوئے جو زمین میں فساد پھیلانے سے روکتے، سوائے ان چند کے جنہیں ہم نے ان میں سے نجات دی تھی (١) ظالم لوگ تو اس چیز کے پیچھے پڑگئے جس میں انھیں آسودگی دی گئی تھی اور وہ گنہگار تھے (٢)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٢٩] عذاب کے متعلق اللہ کا قانون :۔ ان دو آیات میں قوموں کے عروج و زوال یا کسی قوم پر اللہ تعالیٰ کی گرفت کا ضابطہ بیان فرمایا گیا ہے، ہوتا یہ ہے کہ جب کبھی کوئی نبی مبعوث ہوتا اور لوگوں کو ایمان لانے اور بھلے کاموں کی دعوت دیتا ہے تو معرکہ حق و باطل شروع ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں اللہ مجرموں کو ہلاک کردیتا ہے اور اہل ایمان کو بچا لیتا ہے۔ پھر ان بچے ہوئے اہل ایمان کی اولاد میں پھر سے برائی جنم لینے لگتی ہے اگر اس برائی کا پوری قوت سے سرتوڑ دیا جائے تو معاشرہ عذاب سے بچا رہتا ہے لیکن اگر غفلت کی جائے تو برائی عام ہوجاتی ہے اور اہل اصلاح و خیر تھوڑے ہی لوگ رہ جاتے ہیں۔ پھر اگر یہ اہل خیر نہی عن المنکر کا فریضہ اپنی حسب توفیق سرانجام دیتے ہیں تو بھی ان نیک لوگوں کی موجودگی کی وجہ سے اللہ کی طرف سے عذاب نہیں آتا۔ لیکن اگر یہ اہل خیر اتنے کمزور ثابت ہوں کہ نہی عن المنکر سے غفلت برتنے لگیں یا اتنے تھوڑے رہ جائیں کہ ان کی آواز غیر موثر ہو کر رہ جائے اور برائی عام ہوجائے اور خوشحال لوگ اپنی عیش کوشیوں میں ہی پڑے رہیں تو اس صورت میں اللہ تعالیٰ کا عذاب آ جاتا ہے جو غفلت شعار اہل خیر کو بھی نہیں چھوڑتا اور اس طرح گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے اور اگر اہل خیر اپنی مقدور بھر برائی کے استیصال میں کوشاں رہے ہوں تو پھر یا تو عذاب آتا ہی نہیں یا پھر اللہ انھیں بچانے کی کوئی نہ کوئی صورت پیدا کردیتا ہے۔