قَالُوا يَا شُعَيْبُ أَصَلَاتُكَ تَأْمُرُكَ أَن نَّتْرُكَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا أَوْ أَن نَّفْعَلَ فِي أَمْوَالِنَا مَا نَشَاءُ ۖ إِنَّكَ لَأَنتَ الْحَلِيمُ الرَّشِيدُ
انہوں نے جواب دیا کہ اے شعیب! کیا تیری صلاۃ (١) تجھے یہی حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے باپ دادوں کے معبودوں کو چھوڑ دیں اور ہم اپنے مالوں میں جو کچھ چاہیں اس کا کرنا بھی چھوڑ دیں (٢) تو تو بڑا ہی با وقار اور نیک چلن آدمی ہے (٣)۔
[٩٧] ٹھیک طرح سے نماز ادا کرنے کے اثرات :۔ نماز اگر فی الواقع سوچ سمجھ کر اور خشوع و خضوع سے ادا کی جائے تو فی الواقع وہی باتیں سکھلاتی ہے جن کی قوم شعیب کو سمجھ آگئی تھی۔ مگر افسوس ہے کہ ہم مسلمانوں کو ان باتوں کی بھی سمجھ نہیں آتی جو مدین والے سمجھ گئے تھے نماز انسان میں تقویٰ پیدا کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے اور تقویٰ ہی وہ چیز ہے جو انسان کو ہر طرح کی اعتقادی، اخلاقی اور معاشرتی برائیوں سے بچاتا ہے۔ غور فرمائیے کہ جو انسان ایک دن میں بیسیوں دفعہ سوچ سمجھ کراِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ پڑھے گا وہ مشرک رہ سکتا ہے جو انسان دن میں بیسیوں دفعہ اللہ کے آگے سجدہ ریز ہو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے وہ کیا اپنے کام کاج اور کاروبار کے وقت اللہ کو یاد نہ رکھے گا اور بددیانتیاں ترک نہ کردے گا اور حرام و حلال کی تمیز اسے ملحوظ نہ رہے گی؟ اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر یوں بیان فرمایا : ﴿اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَرِ ﴾(۹تا۴۵) اور فحشاء اور منکر کے الفاظ کے مفہوم میں اتنی وسعت ہے کہ ہر طرح کی برائیاں ان میں آجاتی ہیں بالفاظ دیگر نماز کی صحت کا معیار ہی یہ ہے کہ انسان میں تقویٰ پیدا ہو وہ ہر طرح کی برائیاں چھوڑ دے اور نیکی کے کاموں کی طرف راغب ہو اور کسی شخص میں نماز ایسا اثر پیدا نہیں کرتی تو سمجھ لیجئے کہ وہ نماز ادا نہیں کرتا بلکہ بے گار کاٹتا ہے۔ [ ٩٨] کیا نماز اور عبادت اللہ اور بندے کا پرائیویٹ معاملہ ہے؟ ان لوگوں کا اپنے مال میں تصرف کا مطلب یہ تھا کہ ہم جن جائز اور ناجائز ذرائع سے مال کمائیں یا جن کاموں میں ہم چاہیں خرچ کریں ہم پر کچھ پابندی نہ ہونا چاہیے اگر تم نمازیں پڑھتے ہو تو پڑھو مگر ہمیں کیوں اس سلسلہ میں تنگ کرتے ہو کیا تمہاری نماز تمہیں یہ سکھلاتی ہے کہ اسے دوسروں پر بھی لاگو کرو۔ تم تو اچھے بھلے سمجھ دار آدمی ہو یہ دوسروں کے معاملات میں دخل دینا بھلا کون سی عقل مندی ہے گویا عبادات کے متعلق ان لوگوں کا نظریہ وہی تھا جو آج کل کی اس دنیا کا ہے جسے مہذب سمجھا جاتا ہے یعنی عبادت بندے اور خدا کا ذاتی اور پرائیویٹ معاملہ ہے اور اسے دنیوی معاملات میں اثر انداز نہ ہونا چاہیے گویا وہی پرانی جاہلیت پھر سے نئی روشنی کی صورت میں عود کر آئی ہے۔