وَلَئِنْ أَتَيْتَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ بِكُلِّ آيَةٍ مَّا تَبِعُوا قِبْلَتَكَ ۚ وَمَا أَنتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ ۚ وَمَا بَعْضُهُم بِتَابِعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ ۚ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُم مِّن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ إِنَّكَ إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِينَ
اور آپ اگرچہ اہل کتاب کو تمام دلیلیں دے دیں لیکن وہ آپ کے قبلے کی پیروی نہیں کریں گے (١) اور نہ آپ کے قبلے کو ماننے والے ہیں (٢) اور نہ یہ آپس میں ایک دوسرے کے قبلے کو ماننے والے ہیں (٣) اور اگر آپ باوجود کہ آپ کے پاس علم آچکا ہے پھر بھی ان کی خواہشوں کے پیچھے لگ جائیں تو بالیقین آپ بھی ظالموں میں ہوجائیں گے (٤)۔
[١٨٠] اس لیے کہ ان کا یہ جھگڑا کسی دلیل کی بنیاد پر نہیں بلکہ محض حسد و عناد کی بنا پر ہے۔ یعنی اگر آپ یہ بات انہیں ان کی کتابوں سے دکھلا بھی دیں۔ تب بھی یہ ماننے والے نہیں۔ [ ١٨١]اہل کتاب کا قبلہ میں اختلاف :۔ یعنی اہل کتاب کے قبلے بھی مختلف ہیں۔ یہود کا قبلہ تو صخرہ بیت المقدس ہے۔ (بیت المقدس کو حضرت سلیمان علیہ السلام نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے تیرہ سو سال بعد تعمیر کیا تھا) اور نصاریٰ کا قبلہ بیت المقدس کی شرقی جانب ہے۔ جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نفخ روح ہوا تھا تو جب یہ لوگ آپس میں بھی کسی ایک قبلہ پر متفق نہیں تو آپ کے ساتھ کیسے اتفاق کرسکتے ہیں یا آپ ان میں سے کس کے قبلہ کی پیروی کریں گے۔ [ ١٨٢] رسول ہونے کی حیثیت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کام نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو راضی کرتے پھریں اور کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر سمجھوتہ کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام یہ ہے کہ جو علم ہم نے آپ کو دیا ہے اس پر سختی سے کاربند رہیں اور ظالم ہونے کا خطاب دراصل امت کو ہے۔ رسول بھلا وحی الٰہی کو کیسے نظر انداز کرسکتا ہے۔ امت کو یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ رسول کے ذریعہ اللہ کا حکم جو تمہیں مل رہا ہے۔ اس پر پورا پورا یقین رکھو، اور اس کے مطابق عمل کرو، اور اگر تم نے یہود کو خوش کرنے کی کوشش کی تو تمہارا شمار ظالموں میں ہوگا۔