قَالَ يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ ۖ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ۖ فَلَا تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۖ إِنِّي أَعِظُكَ أَن تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ
اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے نوح یقیناً وہ تیرے گھرانے سے نہیں ہے (١) اس کے کام بالکل ہی ناشائستہ ہیں (٢) تجھے ہرگز وہ چیز نہ مانگنی چاہیے جس کا تجھے مطلقا علم نہ ہو (٣) میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ تو جاہلوں میں سے اپنا شمار کرانے سے باز رہے (٤)۔
[٥١] بدکردار بیٹا بھی نبی کا اہل نہیں ہوسکتا :۔ جب دیکھتے ہی دیکھتے سیدنا نوح علیہ السلام کے سامنے ان کا بیٹا غرق ہوگیا تو ملول ہوگئے اور اللہ سے اس انداز میں التجا کی کہ ’’یا اللہ تیرا وعدہ تھا کہ میں تیرے اہل کو بچا لوں گا اور وعدہ بھی سچا اور تیرا فیصلہ بھی سب حاکموں سے بہتر اور آخری جس کی کوئی اپیل بھی نہیں اور یہ غرق ہونے والا بیٹا بھی تو میرے اہل میں سے ہی تھا۔‘‘ پھر اسے غرق کرنے میں کیا حکمت تھی؟ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب یہ دیا کہ ’’ایک بدکردار آدمی نبی کے اہل میں سے کیسے ہوسکتا ہے وہ ہرگز تمہارے اہل میں سے نہیں تھا خواہ وہ تمہارا صلبی بیٹا ہی تھا اور دیکھو آئندہ مجھ سے ایسا جاہلانہ سوال کبھی نہ کرنا‘‘ نبوت زادگی اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکتی :۔ اس سوال و جواب سے ایک نہایت اہم سبق ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں صرف ایمان اور عمل صالح ہی کی قدر وقیمت ہے صرف یہی نہیں کہ کنعان کی نبوت زادگی اس کے کچھ کام نہ آسکی بلکہ ایک اولوالعزم نبی اپنے بیٹے کے لیے نجات کی التجا کر رہا ہے تو الٹا اس پر ہی عتاب نازل ہوتا ہے اس سے ان لوگوں کو سبق حاصل کرنا چاہیے جنہوں نے سستی نجات کے لیے طرح طرح کے عقیدے وضع کر رکھے ہیں کسی شخص کا سید ہونا یا کسی بزرگ کا دامن پکڑنا اللہ کے ہاں کچھ وقعت نہیں رکھتا۔