قَالَ سَآوِي إِلَىٰ جَبَلٍ يَعْصِمُنِي مِنَ الْمَاءِ ۚ قَالَ لَا عَاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ إِلَّا مَن رَّحِمَ ۚ وَحَالَ بَيْنَهُمَا الْمَوْجُ فَكَانَ مِنَ الْمُغْرَقِينَ
اس نے جواب دیا کہ میں تو کسی بڑے پہاڑ کی طرف پناہ میں آجاؤں گا جو مجھے پانی سے بچا لے گا (١) نوح نے کہا آج اللہ کے امر سے بچانے والا کوئی نہیں، صرف وہی بچیں گے جن پر اللہ کا رحم ہوا۔ اسی وقت ان دونوں کے درمیان موج حائل ہوگئی اور وہ ڈوبنے والوں میں سے ہوگیا (٢)۔
[٤٩] بیٹے کا جواب :۔ ضدی بیٹے نے باپ کی آرزو کو ٹھکراتے ہوئے کہا کہ ’’میں ابھی پہاڑ پر چڑھ کر اپنی جان بچا لوں گا‘‘ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ پانی اتنا چڑھ جانے والا ہے کہ وہ اس پہاڑ کو بھی اپنے اندر چھپا لے گا۔ نوح علیہ السلام نے اسے کہا ’’بیٹے کس خبط میں پڑے ہو یہ کوئی معمولی سیلاب نہیں بلکہ اللہ کا عذاب ہے اور پہاڑ کی کیا حقیقت ہے کوئی چیز بھی آج کسی کو اللہ کے عذاب سے بچا نہیں سکتی الا یہ کہ اللہ خود ہی کسی پر رحم فرما کر اسے بچا لے‘‘ یہ گفتگو ابھی پوری بھی نہ ہونے پائی تھی کہ ایک تند و تیز لہر اٹھی جس نے بیٹے کی طرف رخ کرکے ان دونوں کو ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے سے جدا کردیا اور یہ کافر اور نافرمان بیٹا سیدنا نوح علیہ السلام کی آنکھوں کے سامنے طوفان میں غرق ہوگیا اور سیدنا نوح جیسے اولوالعزم پیغمبر بھی اس کی کچھ مدد نہ کرسکے۔