أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۖ قُلْ إِنِ افْتَرَيْتُهُ فَعَلَيَّ إِجْرَامِي وَأَنَا بَرِيءٌ مِّمَّا تُجْرِمُونَ
کیا یہ کہتے ہیں کہ اسے خود اسی نے گھڑ لیا ہے؟ تو جواب دے کہ اگر میں نے اسے گھڑ لیا ہو تو میرا گناہ مجھ پر ہے اور میں ان گناہوں سے بری ہوں جو تم کر رہے ہو (١)
[٤٢] کفار مکہ اور قوم نوح میں مماثلت :۔ سابقہ آیات میں نوح علیہ السلام کے جو حالات بیان کیے گئے ہیں اور جو کچھ ان کی قوم ان کو جواب دیتی اور ان سے تکرار کرتی رہی وہ بعینہ ویسے ہی تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ میں قریش مکہ کی طرف سے پیش آرہے تھے لہٰذا قریش مکہ کو یہ شبہ لاحق ہوا کہ یہ تو ہمارے ہی حالات اور سوال و جواب ہیں جو نوح علیہ السلام کا نام لے کر ہمارے سامنے پیش کیے جارہے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک الزام یہ بھی لگا دیا کہ یہ باتیں تو یہ خود ہی بنا کر ہمارے سامنے بیان کر رہا ہے اور ’’گفتہ آید در حدیث دیگراں‘‘ کے مصداق ہم پر ہی یہ چوٹ کی جارہی ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ قریش مکہ سیدنا نوح علیہ السلام کے واقعات سے عبرت حاصل کرتے مگر اس کے بجائے ان کا ذہن برے پہلو کی طرف گیا اور اپنی اصلاح کرنے کی بجائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک اور الزام لگا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ آپ ان سے کہیے کہ اگر تمہارے کہنے کے مطابق یہ واقعہ میں نے گھڑا ہے تو پھر میں ہی اس جرم کا ذمہ دار ہوں لیکن جو جرائم تم کر رہے ہو ان کی بھی کچھ فکر ہے؟ وہ تو تمہیں ہی بھگتنا ہوں گے نہ کہ مجھے۔