سورة ھود - آیت 27

فَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَوْمِهِ مَا نَرَاكَ إِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا وَمَا نَرَاكَ اتَّبَعَكَ إِلَّا الَّذِينَ هُمْ أَرَاذِلُنَا بَادِيَ الرَّأْيِ وَمَا نَرَىٰ لَكُمْ عَلَيْنَا مِن فَضْلٍ بَلْ نَظُنُّكُمْ كَاذِبِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اس کی قوم کے کافروں کے سرداروں نے جواب دیا کہ ہم تو تجھے اپنے جیسا انسان ہی دیکھتے ہیں (١) اور تیرے تابعداروں کو بھی ہم دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ واضح طور پر سوائے نیچ (٢) لوگوں کے (٣) اور کوئی نہیں جو بے سوچے سمجھے (تمہاری پیروی کر رہے ہیں) ہم تو تمہاری کسی قسم کی برتری اپنے اوپر نہیں دیکھ رہے، بلکہ ہم تو تمہیں جھوٹا سمجھ رہے ہیں۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣٤] یہ وہی اعتراض ہے جو کہ منکرین حق کی طرف سے تمام انبیاء پر ہوتا رہا ہے جن کے خیال میں نبی کو یا تو مافوق البشر مخلوق ہونا چاہیے یا اس کے ساتھ کوئی فرشتہ ہر وقت رہنا چاہیے یا کم از کم دنیوی وجاہت کے لحاظ سے یعنی مال و دولت اور شان و شوکت کے لحاظ سے سب سے بڑھ کر ہونا چاہیے۔ جب تک ان کے نظریہ کے مطابق نبی کو ان چیزوں میں سے کوئی امتیازی چیز حاصل نہ ہو وہ نبی نہیں ہوسکتا۔ [٣٥] کسی نبی کے ابتدائی پیر وکاروں کے خصائل :۔ منکرین حق کا دوسرا بڑا اعتراض یہی ہوتا ہے کہ کیونکہ نبی پر سب سے پہلے ایمان لانے والے لوگ وہ ہوتے ہیں جو معاشرہ اور قوم کے چودھریوں کے ہاتھوں ستم رسیدہ ہوں، غریب ہوں، نوجوان اور باہمت ہوں اور جو ایسے ظالمانہ معاشرہ کے سامنے ڈٹ جانے کی کچھ جرأت بھی رکھتے ہوں ایسے ہی لوگ ہر نبی کا ابتدائی سرمایہ ہوتے ہیں اور یہی لوگ قوم کے چودھریوں کی نظروں میں کھٹکتا خار بن جاتے ہیں حتیٰ کہ چودھری لوگ ان کی موجودگی میں نبی کے پاس بیٹھنا اور کوئی بات سننا بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ ان چودھریوں کے نظریات چونکہ خالصتاً مادہ پرستانہ ہوتے ہیں لہٰذا نبی کی دعوت کو رد کرنے کا انھیں یہ بہانہ بھی ہاتھ لگ جاتا ہے کہ اس نبی کے ہم نشین تو رذیل قسم کے لوگ ہیں لہٰذا ہم اسے سچا کیسے سمجھ سکتے ہیں کچھ شریف لوگ اس کے پیروکار ہوتے تو ہم بھی ان کے ساتھ بیٹھتے اور اس نبی کی بات سنتے۔