وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۗ وَلَئِن قُلْتَ إِنَّكُم مَّبْعُوثُونَ مِن بَعْدِ الْمَوْتِ لَيَقُولَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ
اللہ ہی وہ ہے جس نے چھ دن میں آسمان و زمین کو پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر تھا (١) تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے عمل والا کون ہے، (٢) اگر آپ ان سے کہیں کہ تم لوگ مرنے کے بعد اٹھا کھڑے کئے جاؤ گے تو کافر لوگ پلٹ کر جواب دیں گے یہ تو نرا صاف صاف جادو ہی ہے۔
[١١] مادی اشیاء میں پانی سب سے پہلے پیدا کیا گیا :۔ اس آیت سے اور مندرجہ بالا حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پانی کی تخلیق زمین و آسمان کی تخلیق سے پہلے ہوچکی تھی یہ پانی کہاں تھا اور آیا یہ پانی وہی پانی ہے جو معروف ہے یا کوئی مائع قسم کا مادہ تھا ؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو ہماری سمجھ سے باہر ہیں اور انھیں سمجھنے کے ہم مکلف بھی نہیں البتہ یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش سے پہلے تو اللہ کا عرش پانی پر تھا اور تخلیق کے بعد یہ عرش سات آسمانوں اور کرسی کے بھی اوپر ہے۔ [١٢] تخلیق کائنات کا مقصد تخلیق آدم ہے، دنیا دارالامتحان ہے :۔ اس آیت سے کئی حقائق سامنے آتے ہیں مثلاً زمین و آسمان اور کائنات کی دوسری اشیاء کی تخلیق کا مقصد تخلیق آدم ہے اور یہ زمین یہ آسمان یہ سورج یہ چاند یہ ہوائیں یہ فضائیں اس لیے پیدا کی گئیں کہ ان کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا تھا اور تخلیق آدم کا مقصد یہ ہے کہ انسان کا اس دنیا میں امتحان لیا جائے اور امتحان کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ کچھ لوگ اچھے عمل کریں اور کامیاب ہوں اور کچھ برے عمل کریں اور ناکام ہوں، کامیاب اور اچھے لوگوں کو ان کے اچھے اعمال کا اچھا بدلہ دیا جائے اور بدکرداروں کو پوری پوری سزا دی جائے پھر بعض اچھے اعمال یا برے اعمال اپنے پورے پورے بدلہ کے لیے ایک طویل مدت کا تقاضا کرتے ہیں جو اس دنیا میں میسر آنا ناممکن ہے لہٰذا ضروری ہے کہ اس عالم دنیا کے بعد ایک اور عالم قائم کیا جائے جس میں ہر قسم کے انسانوں کو ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جاسکے یہ معاد پر ایک دلیل ہوئی علاوہ ازیں اس موجودہ کائنات کا مربوط اور منظم نظام اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ یہ کسی علیم و خبیر ہستی کا پیدا کردہ ہے اور اسی کی مرضی کے مطابق چل رہا ہے نہ ہی یہ ممکن ہے کہ یہ کائنات محض اتفاقات کا نتیجہ ہو اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ یہ سب کچھ ایک کھیل تماشا ہو کیونکہ کھیل تماشہ کے کاموں میں ایسی ہم آہنگی ناممکن ہے اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ انسان اس دنیا میں بری بھلی جیسی بھی چاہے زندگی گزار کر مرجائے اور اس سے کوئی باز پرس کرنے والا ہی نہ ہو۔ لہٰذا عالم آخرت کا قیام اور مرنے والوں کو دوبارہ زندگی دے کر اٹھا کھڑا کرنا ضروری ہوا اور کافر جو یوم آخرت کے منکر ہیں جب وہ ایسے دلائل سنتے ہیں تو فوراً پکار اٹھتے ہیں کہ یہ بیان تو کھلا ہوا جادو ہے جس نے بہت سے لوگوں کو مرعوب اور مسحور کرلیا ہے مگر ہم پر یہ جادو کار گر نہ ہوگا۔