وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ ۚ يُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۚ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
اور اگر اللہ تم کو کوئی تکلیف پہنچائے تو بجز اس کے اور کوئی اس کو دور کرنے والا نہیں ہے اور اگر وہ تم کو کوئی خیر پہنچانا چاہیے تو اس کے فضل کا کوئی ہٹانے والا نہیں (١) وہ اپنا فضل اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے نچھاور کر دے اور وہ بڑی مغفرت بڑی رحمت والا ہے۔
[١١٥] عام فہم دلائل سے شرک کی تردید :۔ اس آیت میں حاجت روائی اور مشکل کشائی کی حقیقت یوں واضح کی گئی ہے کہ یہ دونوں باتیں خالصتاً اللہ تعالیٰ ہی کے قبضۂ قدرت میں ہیں یعنی اگر کوئی تکلیف تمہارے مقدر میں لکھی ہوئی ہے تو کوئی جن یا فرشتہ یا نبی اور بزرگ ، پیر فقیر یا کوئی اور آستانہ مافوق الفطرت اسباب کے ذریعہ اس کو دور نہیں کرسکتا۔ ما فوق الفطرت اور فطری اسباب کے نتائج اللہ کے اختیار میں ہیں :۔ اسی طرح اللہ اگر کسی پر کوئی بھلائی کرنا چاہے تو دنیا کی کوئی طاقت مافوق الفطرت اسباب سے اسے روک نہیں سکتی یہاں تک تو معبودان باطل کے تصرف کی تردید کا تعلق ہے اور فطری اسباب کے تحت بھی حاجت روائی اور مشکل کشائی بظاہر نظر آ تو رہی ہوتی ہے مگر اس کی تکمیل اسی صورت میں ہوتی ہے جب کہ اللہ کی طرف سے اذن بھی ہو اس کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک مریض ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے جو نہایت احتیاط کے ساتھ اس کا علاج کرتا ہے لیکن اس کے باوجود بھی شفا اسی صورت میں ہوگی جب اللہ کو منظور ہوگا ورنہ نہیں ہوگی۔ اسی طرح اگر ایک کسان پوری احتیاط سے اچھی قسم کا بیج بوتا اور اپنی فصل کی پوری طرح آبیاری اور نگہداشت کرتا ہے مگر پکی ہوئی فصل کا اسے ملنا یا نہ مل سکنا یا تھوڑی ملنا یا زیادہ ملنا یہ سب کچھ اللہ کے اذن پر موقوف ہے توحید کو سمجھنے میں یہ عقیدہ اس قدر ہمہ گیر ہے کہ اس سے ہر قسم کے شرک کی جڑ کٹ جاتی ہے۔