سورة البقرة - آیت 136

قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَىٰ وَعِيسَىٰ وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِن رَّبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اے مسلمانوں! تم سب کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس چیز پر بھی جو ہماری طرف اتاری گئی اور اس چیز پر بھی جو ابراہیم، اسماعیل اسحاق اور یعقوب علیہم السلام اور ان کی اولاد پر اتاری گئی اور جو کچھ اللہ کی جانب سے موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام اور دوسرے انبیاء علیہم السلام کو دیئے گئے۔ ہم ان میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے، ہم اللہ کے فرمانبردار ہیں (١)۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٦٨]انبیاء میں تفریق کرنے کا مطلب :۔ فرق اس لحاظ سے کہ فلاں نبی حق پر تھا اور فلاں حق پر نہ تھا یا ہم فلاں کو مانتے ہیں یا فلاں کو نہیں مانتے۔ کیونکہ سب انبیاء علیہم السلام ایک ہی صداقت اور ایک ہی راہ راست کی طرف بلاتے رہے ہیں۔ اور سب انبیاء کرام اپنے سے پہلوں کی تصدیق اور بعد میں آنے والوں کی بشارت دیتے اور ان پر ایمان لانے کی تاکید کرتے رہے ہیں۔ اب اگر مثال کے طور پر یہود حضرت عیسیٰ علیہ السلام یا نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لاتے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ اپنے پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور اپنی کتاب تورات پر بھی ایمان نہیں لاتے بلکہ وہ محض باپ دادا کی تقلید میں ایک پیغمبر کو مان رہے ہیں۔ ان کا اصل دین نسل پرستی یا اپنے آباء کی تقلید ہے۔ اپنے پیغمبر کی پیروی نہیں۔ ورنہ اس کی سب باتیں مانتے۔ انبیاء کے درمیان فرق نہ کرنے کا مطلب :۔ تمام انبیاء کرام اپنے اپنے وقتوں میں واجب الاتباع ہوتے ہیں اور ایک نئے نبی کی بعثت کی ضرورت ہمیشہ اس وقت پیش آتی ہے جب سابق نبی کی امت میں شرک و جہالت اور فساد فی الارض عام ہوجائے اور وہ خود کئی گروہوں میں بٹ جائے۔ دین یعنی عقائد و کلیات تو ہر نبی کے دور میں یکساں ہی رہے ہیں۔ البتہ اس دور کے تقاضوں کے مطابق کچھ سابقہ احکام منسوخ اور کچھ نئے احکام اس نئے نبی کو دیئے جاتے ہیں۔ لہٰذا اب اتباع تو صرف اس نئے نبی کی واجب ہوتی ہے اور ایمان لانا سب پر واجب ہوتا ہے۔ یعنی یہ کہ سب انبیاء اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث اور حق و صداقت لے کر آئے تھے۔ اس لحاظ سے ان میں کچھ فرق نہیں ہوتا۔ رہا انبیاء میں درجات کے لحاظ سے فرق اور ایک دوسرے پر تفصیلات تو وہ قرآن کریم سے ثابت ہے۔ جیسے ارشاد باری ہے۔ ﴿ تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ ﴾(۲۵۳:۲)