وَمَا كَانَ هَٰذَا الْقُرْآنُ أَن يُفْتَرَىٰ مِن دُونِ اللَّهِ وَلَٰكِن تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ الْكِتَابِ لَا رَيْبَ فِيهِ مِن رَّبِّ الْعَالَمِينَ
اور یہ قرآن ایسا نہیں ہے کہ اللہ (کی وحی) کے بغیر (اپنے ہی سے) گھڑ لیا گیا ہو۔ بلکہ یہ تو (ان کتابوں کی) تصدیق کرنے والا ہے جو اس سے قبل نازل ہوچکی ہیں (١) اور کتاب (احکام ضروریہ) کی تفصیل بیان کرنے والا (٢) اس میں کوئی بات شک کی نہیں (٣) کہ رب العالمین کی طرف سے ہے (٤)۔
[٥٢] قرآن کے معجزہ ہونے کے مختلف پہلو :۔ قرآن صرف اس لحاظ سے ہی معجزہ نہیں کہ اس میں فصاحت و بلاغت بے مثل ہے روانی اور سلاست ہے زبان میں شیرینی ہے بلکہ اس لحاظ سے بھی بے مثل ہے کہ اس میں پوری انسانیت کی رہنمائی کے لئے جو جامع اور ہمہ گیر ہدایات دی گئی ہیں وہ اللہ کے سوا کوئی دے ہی نہیں سکتا اور اس لحاظ سے بھی بے مثل ہے کہ اس کی آیات میں جتنا بھی غور کیا جائے، نئے سے نئے مفہوم و معانی سامنے آتے چلے جاتے ہیں نیز اس لحاظ سے بھی کہ اس میں پیش کردہ دلائل انتہائی سادہ اور عام فہم ہیں جن سے سب لوگ فیض یاب ہوسکتے ہیں۔ اور یہ صفات صرف اللہ کے کلام میں ہی پائی جاسکتی ہیں جس طرح کوئی انسان اللہ کے بنائے ہوئے چاند سورج جیسا چاند سورج، اس کی بنائی ہوئی زمین جیسی زمین اور آسمان جیسا آسمان نہیں بنا سکتا۔ اسی طرح کوئی انسان اللہ کے کلام جیسا کلام بھی پیش نہیں کرسکتا۔ [٥٣] اس جملہ میں قرآن کی دو مزید صفات بیان فرمائیں ایک یہ کہ یہ پہلی الہامی کتابوں کی تصدیق و توثیق کرتا ہے یعنی جو اصول دین (یعنی الکتاب یا کتاب کی اصل ہیں) ان الہامی کتابوں میں مذکور ہوئے وہی اس میں بھی مذکور ہیں یہ کوئی نئے اصول پیش نہیں کر رہا اور دوسری یہ کہ جو کچھ اصول دین سابقہ کتابوں میں مذکور ہوئے ہیں ان کو مختلف پیرایوں میں اور دلائل و براہین کے ساتھ ان کی تشریح و توضیح بھی کرتا ہے اور یہی اوصاف قرآن کے مُنَزِّلْ مِنَ اللّٰہِ ہونے کے ثبوت ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں موجود عیسائی مشنریوں کے مبلغین کی طرف سے یہ اعتراض بڑی شد ومد سے اٹھایا گیا ہے کہ اگر قرآن سابقہ الہامی کتابوں کی تعلیم ہی پیش کرتا ہے اور ان سابقہ کتابوں کی تصدیق بھی کرتا ہے تو پھر قرآن کے نازل ہونے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ پھر’’عدم ضرورت قرآن‘‘ پر مستقل کتابیں بھی لکھی گئیں اور لوگوں میں تقسیم کی گئیں اس اعتراض کا الزامی جواب تو یہ ہے کہ انجیل بھی کوئی مستقل الہامی کتاب نہیں بلکہ تورات ہی کی توضیح و تشریح پیش کرتی ہے تو پھر آخر اس کی کیا ضرورت تھی اور عیسیٰ علیہ السلام کے مبعوث ہونے کا کیا فائدہ تھا اب اس سے آگے چلئے۔ تورات کے نزول سے پہلے یعنی موسیٰ علیہ السلام پر تورات نازل ہونے سے پہلے سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر سیدنا موسیٰ علیہ السلام تک تمام انبیاء پر جو وحی نازل ہوتی رہی اس کے بھی کلیات دین وہی تھے جو تورات میں مذکور ہیں تو پھر آخر تورات کی بھی کیا ضرورت تھی؟ اور اس اعتراض کا حقیقی جواب یہ ہے کہ سابقہ تمام الہامی کتب میں کسی کتاب کا بھی اصل متن محفوظ نہیں رہا جس زبان میں وہ نازل ہوئی تھیں ان کتابوں کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے انبیاء متعلقہ کے بعد ان کے علماء پر ڈالی تھی۔ خود ان کتابوں کی حفاظت کی ذمہ داری نہیں لی تھی۔ جیسا کہ درج ذیل آیت سے واضح ہے : ﴿ اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰیۃَ فِیْہَا ہُدًی وَّنُوْرٌ ۚ یَحْکُمُ بِہَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِیْنَ ہَادُوْا وَالرَّبّٰنِیُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ کِتٰبِ اللّٰہِ وَکَانُوْا عَلَیْہِ شُہَدَاۗءَ ۚ﴾(5: 44) ’’ہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی اللہ کے فرمانبردار انبیاء اور یہود کے مشائخ اور علماء یہود کے درمیان اسی کے مطابق فیصلے کرتے تھے اس لیے کہ اللہ کی کتاب کی حفاظت ان کے ذمہ ڈالی گئی تھی کہ وہ اس کے نگہبان تھے‘‘ گویا تورات سے متعلق مشائخ اور علمائے یہود پر دو طرح کی ذمہ داری ڈالی گئی تھی ایک تو اس کتاب اللہ کی حفاظت کریں دوسرے اس کے احکام پر عمل کرکے اور اسی کے مطابق فیصلے کرکے اس کی عملی حفاظت کا بھی اہتمام کریں اور یہود کے کتاب کی حفاظت کرنے کا یہ حال ہے کہ انہیں تورات لکھی لکھائی مل گئی جو دو دفعہ ضائع ہوئی پھر سینکڑوں سال بعد لکھی گئی اس میں تحریف بھی کی گئی اور علماء کے اقوال اور الحاقی مضامین شامل کیے گئے اور نوبت بایں جارسید کہ خود علمائے یہود کو یہ معلوم کرنا دشوار ہوگیا تھا کہ وہ کتاب کے الہامی اور الحاقی حصے کو الگ الگ کرکے پیش کرسکیں اور عملی حفاظت کا حال اس سے بھی برا تھا انہوں نے کئی حرام چیزوں کو حلال اور حلال کو حرام بنا لیا تھا وہ غیر یہود کے اموال کو ہر جائز و ناجائز طریقے سے ہضم کر جانا درست اور جائز سمجھتے تھے۔ سود کو حلال بنا لیا تھا غلط فتوے دے کر پیسے بٹورتے تھے۔ شرفا کے لئے حدود اللہ کو ساقط کردیتے تھے اور تورات کی بہت سی آیات کو چھپا جاتے اور لوگوں تک نہیں پہنچاتے تھے۔ اندریں صورت حال ضروری تھا کہ اللہ تعالیٰ ایک نئے جلیل القدر نبی کو مبعوث کرکے اور کتاب انجیل نازل کرکے لوگوں کو صحیح الہامی تعلیم سے روشناس کرائیں چنانچہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے یہی فریضہ سر انجام دیا تھا۔ اب انجیل کا حال سنیے۔ انجیل سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی موجودگی میں لکھی ہی نہیں گئی بعد میں سب کام روایت پر چلایا گیا اس کے ابتدائی راوی چار ہیں پھر انہوں نے خود قلم بند نہیں کی بلکہ بعد میں آنے والے شاگردوں نے کی جن میں نہ اسناد کا ذکر ہے اور نہ ہی روایت و درایت کا کوئی معیار ملحوظ رکھا گیا ہے پھر یہ جو کچھ بھی تھا وہ بھی اصل زبان میں محفوظ نہیں رہا بلکہ ان چار انجیلوں کے صرف تراجم ہی ملتے ہیں جن میں بے شمار اختلافات پائے جاتے ہیں اور ان میں تحریف بھی ثابت شدہ امر ہے۔ اندریں حالات ضروری تھا کہ اللہ تعالیٰ ایک اور جلیل القدر نبی بھیج کر حقیقی تعلیم سے لوگوں کو متنبہ کریں اور یہ ضرورت قرآن کو نازل کرکے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کرنے سے پوری کی گئی۔ جو ان تمام امور و عقائد میں دو ٹوک فیصلہ دیتی ہے جن میں اہل کتاب میں اختلاف واقع ہوئے تھے اور وہ کئی فرقوں میں بٹ گئے تھے۔ قرآن کے بعد کسی الہامی کتاب کی ضرورت نہیں :۔ یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے اختلافات تو آج کل مسلمانوں میں بھی عام ہیں پھر کیا آج بھی کسی نئے نبی یا نئی الہامی کتاب کی ضرورت ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کے بعد کسی نئی الہامی کتاب کی ضرورت نہیں رہی وجہ یہ ہے کہ قرآن کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے لے رکھا ہے اور مسلم تو درکنار اغیار بھی یہ بات ماننے پر مجبور ہیں کہ قرآن جس طرح نازل ہوا تھا آج بھی بعینہ اسی اپنی اصلی حالت میں محفوظ ہے اور اللہ کی حفاظت کا حال یہ ہے کہ اگر دنیا بھر کے معاندین قرآن کو صفحہ ہستی سے ناپید کرنے یا اس میں ردوبدل کرنے کی کوشش کریں تو وہ ایسا نہیں کرسکتے کیونکہ ہر دور میں اس قرآن کریم کے کروڑوں حافظ موجود رہے ہیں۔ پھر قلمی حفاظت کے لاتعداد ذرائع سے بھی ابتداء سے لے کر آج تک حفاظت ہوتی رہی ہے۔ اور تا قیامت ہوتی رہے گی۔ اور اس کی عملی حفاظت کا بھی انتظام اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے مسلمانوں میں اگرچہ بے شمار اختلاف اور فرقے ہیں تاہم یہ سب کے سب گمراہ نہیں بلکہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ان میں تا قیامت ایک فرقہ ایسا موجود ہے اور موجود رہے گا جو حق پر قائم رہے گا اور یہ فرقہ وہ ہے جو صرف کتاب و سنت پر انحصار کرتا ہے۔ نہ اس میں کوئی کمی گوارا کرتا ہے اور نہ اضافہ۔ وہ اپنے دین میں کوئی بدعی عقیدہ یا عمل کو برداشت نہیں کرتا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جس طرح قرآن کے الفاظ کی حفاظت کا ذمہ لے رکھا ہے اسی طرح اس کے مطالب و معانی اور تشریح و تعبیر کی حفاظت کا ذمہ لے رکھا ہے ورنہ محض الفاظ کی حفاظت کوئی معنی نہیں رکھتی۔ قرآن کی تشریح و توضیح اور صحیح تفسیر ہمیں احادیث یا سنت رسول میں ملتی ہے اس سنت کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے کیسے فرمائی یہ ایک الگ مضمون ہے جسے ہم نے اس کے مناسب مقامات پر درج کردیا ہے۔ ان تصریحات سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن و سنت کی حفاظت اور ایک فرقہ حقہ کی موجودگی میں نہ کسی نئے نبی کی ضرورت باقی رہتی ہے اور نہ کسی نئی الہامی کتاب کی۔