إِنَّمَا مَثَلُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاءٍ أَنزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعَامُ حَتَّىٰ إِذَا أَخَذَتِ الْأَرْضُ زُخْرُفَهَا وَازَّيَّنَتْ وَظَنَّ أَهْلُهَا أَنَّهُمْ قَادِرُونَ عَلَيْهَا أَتَاهَا أَمْرُنَا لَيْلًا أَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنَاهَا حَصِيدًا كَأَن لَّمْ تَغْنَ بِالْأَمْسِ ۚ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
پس دنیاوی زندگی کی حالت تو ایسی ہے جیسے ہم نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس سے زمین کی نباتات، جن کو آدمی اور چوپائے کھاتے ہیں، خوب گنجان ہو کر نکلی یہاں تک کہ جب وہ زمین اپنی رونق کا پورا حصہ لے چکی اور اس کی خوب زیبائش ہوگئی اور اس کے مالکوں نے سمجھ لیا کہ اب ہم اس پر بالکل قابض ہوچکے ہیں تو دن میں یا رات میں اس پر ہماری طرف سے کوئی حکم (عذاب) آپڑا سو ہم نے اس کو ایسا صاف کردیا (٣) کہ گویا کل وہ موجود ہی نہ تھی۔ ہم اس طرح آیات کو صاف صاف بیان کرتے ہیں ایسے لوگوں کے لئے جو سوچتے ہیں۔
[٣٥] ﴿فَاخْتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ ﴾ کے دو مفہوم ہیں ایک یہ کہ بارش کے پانی سے پیداوار اس کثرت سے پیدا ہوئی کہ آپس میں ایک دوسرے سے گتھ گئی ایک پودے کی شاخیں دوسرے میں جاگھسیں اور دوسرے کی پہلے میں۔ اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ پانی سے جو پیداوار یا نباتات حاصل ہوئی وہ انسانوں اور چوپایوں کے لئے ملی جلی یا مشترکہ تھی جیسے گندم کے دانے تو انسان کی خوراک ہیں اور بھوسہ چوپایوں کی۔ اور نباتات کی اکثر اقسام میں یہی صورت حال ہوتی ہے۔ [٣٦] دنیا کی زندگی کی کھیتی سے مثال :۔ اس آیت میں دنیا کی بے ثباتی کی مثال بیان کی گئی ہے جس طرح نباتات پر جوبن آتا ہے پھلوں اور پھولوں کے مختلف رنگ ہوتے ہیں جو زمین کے اس قطعہ کو خوب زینت بخشتے ہیں اسی طرح انسانوں پر بھی جوانی آتی ہے جب اسے دنیا کی ہر چیز حسین نظر آنے لگتی ہے اور وہ دنیا کی رعنائیوں میں پوری طرح اپنا دل لگا لیتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اب کچھ دن مزے اور عیش و آرام سے گزاریں گے اور زندگی کا لطف اٹھائیں گے کہ اتنے میں اسے اللہ کا حکم یعنی موت اچانک آلیتی ہے اور جس طرح کھیتی پر کوئی ناگہانی آفت آنے یا اس کے کٹ جانے کے بعد چند دنوں تک اس کا وجود ہی ختم ہوجاتا ہے اسی طرح مرجانے والا انسان بھی تھوڑی مدت بعد لوگوں کے دلوں سے محو ہوجاتا ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے جب اس کا نام ونشان تک دنیا سے مٹ جاتا ہے اور اس دنیا میں آباد ہو کر رخصت ہونے والے ننانوے فی صد لوگوں کا یہی حال ہوتا ہے۔