سورة التوبہ - آیت 43

عَفَا اللَّهُ عَنكَ لِمَ أَذِنتَ لَهُمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَتَعْلَمَ الْكَاذِبِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اللہ تجھے معاف فرما دے، تو نے انہیں کیوں اجازت دے دی؟ بغیر اس کے کہ تیرے سامنے سچے لوگ کھل جائیں اور تو جھوٹے لوگوں کو بھی جان لے (١)۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٤٧] آپ پر عتاب سے پہلے معافی کا اعلان :۔ اس موقع پر منافقوں نے یہ روش اختیار کی کہ جھوٹے حیلے تراش کر آپ سے مدینہ میں رہ جانے کی اجازت طلب کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی کسی حد تک یہ جاننے کے باوجود کہ ان کی یہ معذرت حقیقی نہیں بلکہ عذر لنگ ہے، اپنی نرم طبع کی بنا پر انہیں اجازت دے دیتے تھے جبکہ اللہ کو یہ بات پسند نہ تھی۔ اللہ کو یہ منظور تھا کہ ان منافقوں کا خبث باطن اور مکر کھل کر سب کے سامنے آ جائے۔ جہاد پر روانہ ہونے کی ہمت اور ارادہ تو وہ سرے سے رکھتے ہی نہ تھے پھر یہ اس اجازت کا سہارا کیوں لیں۔ کیوں نہ ننگے ہو کر سامنے آئیں۔ اس صورت حال پر اللہ کا عتاب ہوا مگر ساتھ ہی اللہ نے اپنے حبیب پر کمال عنایت بھی ظاہر کی کہ تقصیر بیان کرنے سے پہلے ہی معافی کا اعلان فرما دیا۔