يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۗ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ
اے ایمان والو! اکثر علماء اور عابد، لوگوں کا مال ناحق کھا جاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روک دیتے ہیں (١) اور جو لوگ سونا چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، انہیں دردناک عذاب کی خبر پہنچا دیجئے (٢)۔
[٣٤] اہل کتاب کی حرام خوری :۔ ان کے ناجائز طریقے یہ تھے کہ انہوں نے سود کو جائز قرار دے لیا تھا۔ بالخصوص غیر یہود سے سود وصول کرنا نیکی کا کام سمجھتے تھے۔ نیز غیر یہود کے اموال جس جائز و ناجائز طریقہ سے ہاتھ لگ جائیں وہ ان کے نزدیک حلال اور طیب تھے۔ رشوتیں لے کر غلط فتوے دیتے تھے۔ نجات نامے فروخت کرتے تھے۔ حرام کردہ چیزوں مثلاً چربی کو پگھلا کر ان کی قیمت کھا لیتے تھے۔ شادی یا غمی کی کوئی رسم ہو اس میں اپنا حصہ اور نذرانے وصول کرتے تھے۔ اور ان کی یہی کارستانیاں بالواسطہ اللہ کے دین میں رکاوٹ کا سبب بن جاتی تھیں۔ [٣٥] خزانہ جمع کرنے سے مراد :۔ اس جملہ کے مخاطب صرف اہل کتاب ہیں یا ان میں مسلمان بھی شامل ہیں۔ اس بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان بھی اختلاف تھا۔ مثلاً سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس بات کے قائل تھے کہ جس مال سے زکوٰۃ ادا کردی جائے وہ خزانہ کے حکم میں نہیں رہتا جبکہ سیدنا ابوذر غفاری اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم خزانہ جمع کرنے کے مخالف تھے جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے :۔ ١۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جبکہ ابھی زکوٰۃ کی فرضیت نازل نہیں ہوئی تھی۔ پھر جب زکوٰۃ فرض ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے اموال کو زکوٰۃ سے پاک کردیا۔ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب مااُدِّی زکوٰتہ فلیس بکنز) ٢۔ احنف بن قیس کہتے ہیں کہ : میں قریش کی ایک جماعت میں بیٹھا ہوا تھا۔ اتنے میں ایک شخص آیا جس کے بال سخت، موٹے جھوٹے کپڑے اور سیدھی سادی شکل تھی۔ اس نے سلام کیا۔ پھر کہنے لگا ’’ان کو خوشخبری سنا دو کہ ایک پتھر دوزخ کی آگ میں تپایا جائے گا وہ ان کی چھاتی پر رکھ دیا جائے گا اور ان کے مونڈھے کی اوپر والی ہڈی پر رکھ دیا جائے گا جو چھاتی کی بھٹنی سے پار ہوجائے گا اسی طرح وہ پتھر ڈھلکتا رہے گا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے پیٹھ موڑی اور ایک درخت کے پاس جا بیٹھا۔ میں نے اس سے کہا ’’میں سمجھتا ہوں تمہاری یہ بات ان لوگوں کو ناگوار گزری ہے‘‘ وہ کہنے لگا۔ یہ لوگ تو بے وقوف ہیں۔ مجھ سے میرے جانی دوست نے کہا۔ میں نے پوچھا ’’تمہارا جانی دوست کون ہے؟‘‘ کہنے لگا ’’رسول اللہ اور کون؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ابو ذر! تو احد پہاڑ دیکھتا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا ''جی ہاں'' فرمایا ’’میں نہیں چاہتا کہ میرے پاس احد پہاڑ برابر سونا ہو۔ اگر ہو تو میں تین دینار کے علاوہ سب اللہ کی راہ میں خرچ کر ڈالوں۔‘‘ اور یہ لوگ تو بے وقوف ہیں جو روپیہ اکٹھا کرتے ہیں اور میں تو اللہ کی قسم! ان سے نہ تو دنیا کا کوئی سوال کروں گا اور نہ دین کی کوئی بات پوچھوں گا۔ یہاں تک کہ اللہ سے جا ملوں۔ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب ما ادی زکوٰتہ فلیس بکنز ) ٣۔ سیدنا ابوذر غفاری کا مسلک :۔ زید بن وہب کہتے ہیں کہ میں نے ربذہ (مدینہ کے قریب ایک مقام ہے) میں ابوذر غفاری کو دیکھا تو پوچھا ’’تم یہاں جنگل میں کیسے آ گئے؟‘‘ انہوں نے کہا’’ہم ملک شام میں تھے۔ مجھ میں اور معاویہ (گورنر شام) میں جھگڑا ہوگیا۔ میں نے یہ آیت پڑھی ﴿وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَا یُنْفِقُوْنَہَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ۙ فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ ﴾ تو امیر معاویہ نے کہا کہ یہ آیت مسلمانوں کے حق میں نہیں (اگر وہ زکوٰۃ ادا کرتے رہیں) بلکہ اہل کتاب کے حق میں ہے جبکہ میں یہ کہتا تھا کہ یہ آیت (عام) ہے اور ان کے اور ہمارے درمیان مشترک ہے۔‘‘ (حوالہ ایضاً)