لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ فِي مَوَاطِنَ كَثِيرَةٍ ۙ وَيَوْمَ حُنَيْنٍ ۙ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنكُمْ شَيْئًا وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُم مُّدْبِرِينَ
یقیناً اللہ تعالیٰ نے بہت سے میدانوں میں تمہیں فتح دی ہے اور حنین کی لڑائی والے دن بھی جب کہ تمہیں کوئی فائدہ نہ دیا بلکہ زمین باوجود اپنی کشادگی کے تم پر تنگ ہوگئی پھر تم پیٹھ پھیر کر مڑ گئے۔
[٢٣] غزوہ حنین اور اس کے اسباب :۔ حنین مکہ اور طائف کے درمیان ایک مقام ہے جہاں فتح مکہ کے بعد شوال ٨ ھ میں حق و باطل کا ایک بہت بڑا معرکہ پیش آیا تھا۔ عرب کے اکثر بدوی قبائل اس انتظار میں تھے کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قریش پر غالب آ گئے اور مکہ فتح ہوگیا تو بلاشبہ وہ پیغمبر ہیں اور ان کی دعوت کو قبول کرلینا چاہیے۔ چنانچہ مکہ کی فتح کے بعد بہت سے قبائل خودبخود آپ کی صلی اللہ علیہ وسلم خدمت میں حاضر ہو کر اسلام لے آئے لیکن ہوازن اور ثقیف کا معاملہ دوسرے قبائل کے بالکل برعکس تھا۔ یہ قبائل نہایت جنگجو اور فنون حرب و ضرب کے خوب ماہر تھے اور جوں جوں اسلام کو غلبہ حاصل ہوتا تھا یہ قبائل اس غلبہ کو اپنی ریاست و اقتدار کے لیے خطرہ سمجھ کر اور بھی زیادہ سیخ پا ہوجاتے تھے۔ مکہ کی فتح کے بعد ان دونوں قبائل نے باہمی اتفاق سے یہ پروگرام بنایا کہ اس وقت مسلمان مکہ میں جمع ہیں۔ اسی مقام پر ان پر ایک بھرپور حملہ کر کے ان کا زور توڑ دیا جائے۔ ان لوگوں کے جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنی عورتیں اور بچے بھی ساتھ لے آئے تھے تاکہ کسی کو پسپائی کا خیال ہی پیدا نہ ہو۔ ایک تیس سالہ نوجوان مالک بن عوف ان کا سپہ سالار تھا۔ مسلمانوں کی پسپائی :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں ہی مقیم تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان حالات کا علم ہوا۔ فتح مکہ سے تو کچھ مال غنیمت وصول ہی نہ ہوا تھا۔ اب سوال یہ تھا کہ اس نئی جنگ کے لیے اخراجات کہاں سے آئیں؟ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ربیعہ سے تیس ہزار درہم قرض لیے اور اسلحہ جنگ کے طور پر سو زر ہیں اور اس کے لوازمات صفوان بن امیہ سے مستعار لیے اور ان قبائل سے مقابلہ کے لیے مکہ سے نکل کر ان کی طرف بڑھے اور حنین کے مقام پر دونوں لشکر آمنے سامنے آ گئے۔ اس وقت اسلامی لشکر کی تعداد بارہ ہزار تھی جن میں نو مسلم بھی شامل تھے اور دشمن کی تعداد صرف چار ہزار تھی۔ مقابلہ ہوا تو ہوازن کے تیر اندازوں نے کمین گاہوں سے اس طرح تیروں کی بوچھاڑ کی اور اس قدر بے جگری سے لڑے کہ اسلامی لشکر کے جو آج اپنی کثرت تعداد پر نازاں ہونے کی وجہ سے کچھ بے خوف اور لاپروا سے ہو رہے تھے، چھکے چھوٹ گئے اور ان کے پاؤں اکھڑ گئے اور راہ فرار اختیار کی۔ حتیٰ کہ ایک وقت ایسا آیا جب آپ اکیلے دشمن کے سامنے کھڑے رہ گئے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس قدر جرأت اور بہادری کا مظاہرہ کیا۔ اس کا اندازہ درج ذیل احادیث سے ہوتا ہے۔ نیز جنگ کے حالات پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ آپ کی مثالی جرأت :۔ ١۔ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم مال غنیمت پر ٹوٹ پڑے اور دشمن نے ہم پر تیر برسانے شروع کردیئے۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب و یوم حنین۔ مسلم کتاب الجہاد۔ باب فی غزوۃ حنین ) ٢۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حنین کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دس ہزار مجاہدین کے علاوہ طلقاء (جنہیں فتح مکہ کے بعد معافی دی گئی تھی) بھی تھے۔ وہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ گئے تھے اور آپ اکیلے رہ گئے تھے۔ (غزوہ طائف۔ بخاری کتاب المغازی۔ مسلم کتاب الجہاوالسیر باب اعطاء المؤلفۃ قلوبھم ) ٣۔ اصحاب شجرہ کا پکارنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچنا :۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حنین کی جنگ میں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ میں اور ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں چھوڑا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سفید خچر پر سوار تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فروہ بن نغاثہ جذامی نے ہدیہ کیا تھا۔ جب کفار اور مسلمانوں کا مقابلہ ہوا تو مسلمان پیٹھ پھیر کر بھاگے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر پر کفار کی طرف جانے کے لیے ایڑ لگانے لگے۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خچر کی لگام پکڑے ہوئے تھا کہ کہیں وہ تیزی سے دشمن کی طرف نہ چلا جائے اور ابو سفیان رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا ’’عباس! اصحاب شجرہ کو آواز دو (کیونکہ میں بلند بانگ تھا) میں نے بلند آواز سے پکارا : اصحاب شجرۃ کہاں ہیں؟ آواز سنتے ہی وہ اس طرح لوٹ آئے جیسے گائے اپنے بچوں کے پاس آتی ہے۔ وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ہم حاضر ہیں۔ ہم حاضر ہیں۔ انصار کو یوں بلایا گیا۔ یا معشر الانصار! یا معشر الانصار! پھر بنو الحارث بن خزرج پر بلانا ختم ہوا۔ انہیں یوں بلایا گیا۔ اے بنو الحارث بن خزرج۔ اے بنو الحارث بن خزرج! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سفید خچر پر سوار تھے اور اونچے ہو ہو کر لڑائی دیکھ رہے تھے۔ (مسلم۔ کتاب الجہادوالسیر۔ باب فی غزوۃ حنین) ٤۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اشعار پڑھنا :۔ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’جب لوگوں کو ندا دی گئی اس وقت آپ یہ شعر پڑھ رہے تھے۔ انا النبی لاکذب۔۔۔۔۔ انا ابن عبدالمطلب اور فرما رہے تھے اے اللہ اپنی نصرت نازل فرما۔ اللہ کی قسم! جب جنگ شدت اختیار کر جاتی تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اپنا بچاؤ کرتے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہوجاتے تھے اور ہم میں بہادر وہ تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر کھڑا ہوتا۔‘‘ (مسلم۔ کتاب الجہادوالسیہ۔ باب غزوہ حنین) پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پکار پر مہاجرین و انصار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہوگئے تو اس وقت تک اپنی کثرت پر نازاں ہونے کی بو دماغوں سے نکل چکی تھی۔ پھر جم کر لڑے۔ اللہ کی مدد شامل حال ہوئی تو اللہ نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی۔ اس جنگ میں مسلمانوں کو بہت سا مال غنیمت بھی حاصل ہوا اور بہت سے لونڈی غلام بھی بنائے گئے کیونکہ یہ لوگ اپنے بیوی بچوں کو بھی ساتھ لائے تھے۔ گویا جس چیز کو وہ حوصلہ افزائی کے لیے لائے تھے وہی چیز اللہ نے ان کے لیے وبال جان بنا دی۔