يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا آبَاءَكُمْ وَإِخْوَانَكُمْ أَوْلِيَاءَ إِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْإِيمَانِ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ
اے ایمان والو! اپنے باپوں کو اور اپنے بھائیوں کو دوست نہ بناؤ اگر وہ کفر کو ایمان سے زیادہ عزیز رکھیں۔ تم میں سے جو بھی ان سے محبت رکھے گا وہ پورا گنہگار ظالم ہے (١)۔
[٢١] ایمان کی تکمیل کب ؟ :۔ یعنی ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اگر باپ یا بھائی کافر ہوں تو ان سے قرابت تو کیا رفاقت بھی نہ رکھی جائے اور اگر مومن یا مسلمان اس معیار پر پورا نہیں اترتا تو سمجھ لے کہ اس کا ایمان مکمل نہیں۔ اس مضمون کو کتاب و سنت میں متعدد مقامات پر مختلف پیرایوں میں بیان کیا گیا ہے چنانچہ ایک دفعہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ مجھے اپنی ذات کے سوا سب سے زیادہ محبوب ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ابھی تمہارا ایمان مکمل نہیں ہوا۔‘‘ پھر کسی وقت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ’’اللہ کی قسم! آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اب تمہارا ایمان مکمل ہوا۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الایمان والنذور۔ باب کیف کانت یمین النبی )