إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ ۖ فَعَسَىٰ أُولَٰئِكَ أَن يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ
اللہ کی مسجدوں کی رونق و آبادی تو ان کے حصے میں ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں، نمازوں کے پابند ہوں، زکوٰۃ دیتے ہوں، اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے ہوں، توقع ہے یہی لوگ یقیناً ہدایت یافتہ ہیں (١)۔
[١٧] مساجد کی آبادی کا مطلب آباد کرنے والوں کی صفات :۔ آباد کرنے سے مراد مساجد میں نمازوں کے لیے آنا جانا، مساجد کی صفائی، ان میں روشنی کا انتظام، مساجد کی تعمیر، ان کی مرمت اور تولیت وغیرہ سب کچھ شامل ہے اور یہ صرف ان لوگوں کا کام ہے جن میں بالخصوص چار باتیں پائی جائیں۔ اللہ اور روز آخرت پر ایمان، پھر اسی ایمان کی ظاہری شہادت کے طور پر نماز کا قیام اور زکوٰۃ کی ادائیگی اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرنا۔ یعنی اللہ کے سوا دوسرے دیوی، دیوتا، بزرگ یا فرشتوں اور ستاروں کی ارواح کے متعلق یہ گمان رکھنا کہ اگر وہ ناراض ہوگئے تو اسے کوئی نقصان پہنچا سکتے یا کسی مصیبت سے دو چار کرسکتے ہیں پھر اسی بنا پر ان کی نذر و نیاز اور منتیں ماننا یا عبادت کی کوئی بھی رسم بجا لانا کسی ایماندار کا شیوہ نہیں ہوسکتا اور نہ ہی ایسے لوگ کبھی ہدایت پا سکتے ہیں خواہ وہ نبی کی اولاد ہی کیوں نہ ہوں اور ایسی تولیت ان کے ورثہ میں چلی آ رہی ہو۔ مساجد کی آباد کاری اور ان کا ادب و احترام نہایت اعلیٰ درجہ کا عمل ہے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے :۔ ١۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ ’’جس نے اللہ کی رضا جوئی کے لیے مسجد بنائی اللہ ویسا ہی گھر اس کے لیے بہشت میں بنائے گا۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الصلوۃ۔ باب من بنی مسجدا ) ٢۔ سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اگر تم کسی آدمی کو مسجد میں آنے جانے کا عادی دیکھو تو اس کے ایمان کی گواہی دو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ کی مسجدیں صرف وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں۔‘‘ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) ٣۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’سات آدمیوں کو اللہ تعالیٰ اس دن اپنے سائے میں رکھے گا جس دن اس کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہوگا۔ ١۔ عادل بادشاہ، ٢۔ وہ جوان جو جوانی کی امنگ سے اللہ کی عبادت میں رہا۔ ٣۔ وہ شخص جس کا دل مسجد میں لگا رہتا ہے، ٤۔ وہ دو مرد جنہوں نے اللہ کی خاطر محبت کی پھر اس پر قائم رہے۔ اور اسی پر جدا ہوئے، وہ شخص جسے کسی حسب و جمال والی عورت نے (بدی کے لیے) بلایا مگر اس نے کہا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں، وہ مرد جس نے داہنے ہاتھ سے ایسے چھپا کر صدقہ دیا کہ بائیں ہاتھ تک کو خبر نہ ہوئی۔ وہ مرد جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا تو اس کے آنسو بہہ نکلے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب الصدقۃ بالیمین) ٤۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’فرشتے اس شخص کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں جو نماز پڑھنے کے بعد مسجد میں اپنی نماز کی جگہ پر بیٹھا رہے جب تک اس کو حدث لاحق نہ ہو۔ فرشتے یوں کہتے رہتے ہیں۔ یا اللہ اس کو بخش دے یا اللہ اس پر رحم کر۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الصلوۃ۔ باب الحدث فی المسجد) ٥۔ سائب بن یزید کہتے ہیں کہ میں مسجد نبوی میں کھڑا تھا اتنے میں ایک شخص نے مجھ پر کنکر پھینکا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ عمر بن خطاب ہیں۔ مجھے کہنے لگے ’’جاؤ ان دو آدمیوں کو بلا لاؤ۔ ‘‘ میں بلا لایا۔ سیدنا عمر نے ان سے پوچھا ’’کہاں سے آئے ہو؟‘‘ وہ کہنے لگے ’’طائف سے‘‘ سیدنا عمر نے فرمایا ’’اگر تم اس شہر کے رہنے والے ہوتے تو میں تمہیں خوب سزا دیتا۔ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں اپنی آوازیں بلند کرتے ہو؟‘‘ (بخاری۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب رفع الصوت فی المسجد)