سورة التوبہ - آیت 7

كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ عِندَ اللَّهِ وَعِندَ رَسُولِهِ إِلَّا الَّذِينَ عَاهَدتُّمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۖ فَمَا اسْتَقَامُوا لَكُمْ فَاسْتَقِيمُوا لَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

مشرکوں کے لئے عہد اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک کیسے رہ سکتا ہے سوائے ان کے جن سے تم نے عہد و پیمان مسجد حرام کے پاس کیا (١) جب تک وہ لوگ تم سے معاہدہ نبھائیں تم بھی ان سے وفاداری کرو، اللہ تعالیٰ متقیوں سے محبت رکھتا ہے (٢)۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٧] صلح حدیبیہ اور حلیف قبائل :۔ ان سے مراد وہ تین مشرک قبائل ہیں بنو خزاعہ، بنو کنانہ اور بنو ضمرہ۔ جو صلح حدیبیہ کے وقت مسلمانوں کے حلیف بنے تھے۔ اور جب اعلان برأت ہوا تو ان سے معاہدہ کی میعاد میں ابھی نو مہینے باقی تھے۔ اس سورۃ کی آیت نمبر ٤ کے مطابق اس مدت میں ان سے تعرض نہیں کیا گیا۔ نیز اس آیت کی رو سے اس بات کی بھی اجازت دے دی گئی کہ کوئی مشرک جب تک اپنے معاہدہ پر قائم رہتا ہے اس وقت تو تمہیں بہرحال قائم رہنا چاہیے اور اگر وہ اپنا عہد توڑتا ہے تو اس وقت تمہیں بھی مخالفانہ کارروائی کرنے کی اجازت ہے۔ بالفاظ دیگر معاہدہ کی خلاف ورزی کی ابتداء تمہاری طرف سے بہرصورت نہیں ہونی چاہیے اور اس کی مثال معاہدہ یا صلح حدیبیہ ہے جس کی رو سے طے پایا تھا کہ آئندہ مسلمان اور قریش مکہ آپس میں دس سال تک جنگ نہیں کریں گے اور جو قبائل مسلمانوں کے حلیف ہیں قریش ان پر بھی کوئی زیادتی نہ کریں گے اور جوقریش کے حلیف ہیں ان پر مسلمان کوئی زیادتی نہ کریں گے۔ اسی معاہدہ کی رو سے بنو خزاعہ تو مسلمانوں کے حلیف بنے اور بنو بکر قریش کے۔ اور بنو خزاعہ اور بنو بکر کی آپس میں لگتی تھی۔ صلح حدیبیہ کو ابھی سال کا عرصہ بھی نہ گزرا تھا کہ بنو خزاعہ اور بنو بکر کی آپس میں لڑائی ہوگئی اور قریش نے معاہدہ حدیبیہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بنو بکر کو ہتھیار بھی مہیا کیے اور کھل کر ان کا ساتھ بھی دیا۔ اور بنو خزاعہ کی خوب پٹائی کی۔ بنو خزاعہ کا ایک وفد عمر و بن سالم کی سر کردگی میں مدینہ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فریاد کی اور کہا کہ قریش نے عہد توڑ ڈالا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اچھا میں اب تمہاری مدد کرنے میں حق بجانب ہوں گا۔ قریش کی عہد شکنی دراصل مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ تھا۔ تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے سامنے تین شرطیں پیش کیں کہ ان میں سے کوئی ایک قبول کرلی جائے۔ ١۔ بنو خزاعہ کے مقتولین کا خون بہا ادا کیا جائے۔ ٢۔ قریش بنو بکر کی حمایت سے دستبردار ہوجائیں۔ ٣۔ اعلان کیا جائے کہ حدیبیہ کا معاہدہ ختم ہوگیا۔ قاصد نے جب یہ شرائط قریش کے سامنے پیش کیں تو ان کا نوجوان طبقہ فوراً بھڑک اٹھا اور ان میں سے ایک شخص فرط بن عامر نے قریش کی طرف سے اعلان کردیا کہ صرف تیسری شرط منظور ہے۔ جب قاصد واپس چلا گیا تو ان لوگوں کے ہوش ٹھکانے آ گئے اور ابو سفیان کو تجدید معاہدہ کے لیے مدینہ بھیجا گیا۔ ابو سفیان نے مدینہ پہنچ کر تجدید معاہدہ کی درخواست کی جس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہ دیا۔ پھر علی الترتیب سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ حتیٰ کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا تک سفارش کے لیے التجا کی۔ لیکن جب سب نے جواب دے دیا تو مسجد نبوی میں کھڑے ہو کر اس نے یک طرفہ ہی اعلان کردیا کہ میں نے معاہدہ حدیبیہ کی تجدید کردی۔ لیکن اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش کردہ شرائط میں سے کسی کا جواب نہیں دیا تھا۔ لہٰذا اب اصلاح کی کوئی گنجائش نہ رہی تھی اور قریش کی یہی بدعہدی بالآخر مکہ پر چڑھائی کا سبب بن گئی۔ قریش اور بنو بکر کی بدعہدی مکہ پر مسلمانوں کی چڑھائی :۔ ایفائے عہد اسلام کی بنیادی تعلیمات سے ہے اور بدعہدی ایک کبیرہ گناہ ہے جسے احادیث میں منافق کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ یہ عہد خواہ اللہ سے ہو یا کسی بندے سے، لین دین سے تعلق رکھتا ہو یا نکاح و طلاق سے یا صلح و جنگ سے۔ ایک شخص کا دوسرے سے ہو یا کسی قوم سے ہو یا کسی قوم کا دوسری قوم سے ہو بہرحال اسے پورا کرنا واجب ہے خواہ اس سے کتناہی نقصان پہنچ جانے کا خطرہ ہو۔ اس سورۃ میں چونکہ صلح و جنگ سے متعلق ہی قوانین بیان کیے جا رہے ہیں لہٰذا ہم یہی پہلو سامنے رکھتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمن زندگی بھر بدعہدی اور غداری کرتے رہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوابی کارروائی کے طور پر کبھی بھی نقض عہد کو برداشت نہیں کیا۔ یہود کی بدعہدی تو زبان زد ہے انہوں نے میثاق مدینہ کی ہر ہر بار خلاف ورزی کی اور ان کی غداریوں اور بدعہدیوں کا کئی مقام پر ذکر ہوچکا ہے۔ دوسرے قبائل نے بھی بدعہدی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ صلح حدیبیہ کے بعد قریش مکہ نے بنو بکر کی حمایت کر کے معاہدہ حدیبیہ کی صریح خلاف ورزی کی۔ بنو ثعلبہ نے تبلیغ اسلام کی خاطر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دس آدمی طلب کیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چوٹی کے دس عالمان دین ان کے ساتھ روانہ کردیئے اور انہوں نے غداری سے انہیں شہید کردیا۔ یہی کام بنو عکل و قارہ نے کیا انہوں نے تبلیغ اسلام کے نام پر دس عالمان دین کو غداری سے شہید کردیا اور بئر معونہ کا واقعہ تو بڑا ہی دردناک ہے جس میں ستر ممتاز قاری اور عالمان دین کے مقابلہ میں قبیلہ رعل و ذکوان کی جمعیت لا کر انہیں شہید کردیا۔ جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انتہائی صدمہ ہوا۔ علاوہ ازیں اس واقعہ کے بعد دشمن قبائل کے مسلمانوں کے خلاف حوصلے اور بھی بڑھ گئے اور تھوڑی مدت تک اسلام دشمن قومیں اور قبائل جنگ احزاب کی شکل میں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے۔ اب ان کے مقابلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایفائے عہد کے واقعات بھی سن لیجئے کہ کیسے نازک موقعوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محض ایفائے عہد کی خاطر اپنے ہر طرح کے مفادات کو قربان کردیا :۔ ١۔ سیدنا حذیفہ بن یمان اور ان کے والد یمان، جن کی کنیت ابو حُسَیْل تھی۔ غزوہ بدر میں شرکت کے لیے روانہ ہوئے مگر راستہ میں کفار قریش کے ہتھے چڑھ گئے انہوں نے ان کو اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک کہ جنگ میں عدم شرکت کا وعدہ نہ لے لیا۔ پھر یہ دونوں غزوہ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے اور یہ واقعہ بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا کہ’’مدینے چلے جاؤ اور جنگ کی اجازت نہیں دی اور فرمایا ہم ہر حال میں وعدہ وفا کریں گے۔ ہم کو اللہ کی مدد درکار ہے۔‘‘ (مسلم۔ کتاب الجہاد۔ والسیر۔ باب الوفاء بالعھد) حالانکہ اس موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ایک آدمی کی شدید ضرورت تھی۔ ٢۔ بئرمعونہ کے حادثہ میں ٧٠ میں سے ایک شخص عمرو بن امیہ بچ نکلے لیکن بعد میں گرفتار ہوگئے۔ عامر بن طفیل جس نے ان قاریوں کو شہید کروایا تھا۔ نے عمرو بن امیہ کو دیکھ کر کہا ’’میری ماں نے ایک غلام آزاد کرنے کی منت مانی تھی لہٰذا میں یہ منت پوری کرنے کی خاطر عمر و بن امیہ کو آزاد کرتا ہوں۔‘‘ عمرو بن امیہ وہاں سے چلے تو راستہ میں اسی قاتل قبیلہ کے دو افراد مل گئے جنہیں آپ نے قتل کردیا۔ اتفاق کی بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دو آدمیوں کو امان دے چکے تھے جس کا عمرو بن امیہ کو علم نہ تھا۔ اب حالات کا تقاضا تو یہ تھا کہ بنو عامر کی غداری کی بنا پر ان سے جتنی بھی سختی برتی جا سکے برتی جائے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عہد کا لحاظ رکھتے ہوئے ان کا خون بہا ادا کردیا (البدایہ والنہایہ ج ٤ ص ٧٣) ٣۔ صلح حدیبیہ کی شرائط لکھی جا چکی تھیں مگر ابھی اس تحریری معاہدہ پر دستخط ہونا باقی تھے کہ قریش کے نمائندہ صلح سہیل بن عمرو کے بیٹے ابو جندل، جو اسلام لانے کی وجہ سے قید میں ڈال دیئے گئے تھے، قید سے فرار ہو کر پابہ زنجیر مسلمانوں کے پاس پہنچے اور اپنے زخم دکھا دکھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے التجا کر رہے تھے کہ اب مجھے واپس نہ کیجئے۔ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دل بھر آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی رحمتہ للعالمین تھے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محض ایفائے عہد کی خاطر اسے واپس کردیا اور کہا : ابو جندل صبر کرو۔ اللہ تمہارے لیے کوئی راہ پیدا کر دے گا۔ اب صلح کی شرط ہوچکی اور ہم بد عہدی نہیں کرسکتے۔ (بخاری۔ کتاب الشروط۔ باب الشروط علی الجھاد والمصالحۃ) ٤۔ ایسے ہی مظلوم مسلمانوں میں سے ایک عتبہ بن اسید (ابو بصیر) تھے جو قریش کے مظالم سے تنگ آ کر مکہ سے فرار ہو کر مدینہ تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ شرائط صلح حدیبیہ کے مطابق قریش کے دو آدمی بھی ابو بصیر کو لینے مدینہ پہنچ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایفائے عہد کی خاطر ابو بصیر کو کافروں کے حوالہ کردیا اسے بھی آپ نے صبر کی تلقین فرمائی اور فرمایا جلد ہی اللہ تعالیٰ کوئی راہ نکال دے گا (اس واقعہ کی تفصیل سورۃ فتح کے ابتدائی حاشیہ میں ملاحظہ فرمائیے۔) ٥۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایفائے عہد کے واقعات اس کثرت سے ہیں کہ دشمن بھی آپ کی اس خوبی کا برملا اعتراف کرتے تھے۔ جنگ احزاب کے موقعہ پر جب یہود کے قبیلہ بنو نضیر کے سردار حیی بن اخطب نے بنو قریظہ کے سردار کعب بن اسداس کو عہد شکنی پر مجبور کیا تو کعب نے اسے کہا اِنِّیْ لَمْ اَرَمِنْ مُحَمَّدٍ اِلَّا صِدْقًا وَّ وَفَآئً (میں نے ہمیشہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سچا اور عہد کو پورا کرنے والا دیکھا ہے) (طبری ج ١۔ غزوہ خندق) پھر یہ خوبی آپ کی ذات تک ہی محدود نہ تھی بلکہ آپ کے جانشینوں نے بھی عہد کی پوری پوری پابندی کر کے مثال قائم کردی۔ ٦۔ دور فاروقی میں شام کی فتوحات کا سلسلہ جاری تھا۔ سیدنا ابو عبیدہ نے دمشق کا محاصرہ کر رکھا تھا سیدنا خالد بن ولید نے چند جانبازوں کے ہمراہ فصیل پر کمند لگائی اور اوپر چڑھ کر قلعہ کے دروازے کھول دیئے۔ سیدنا خالد کی فوج فاتحانہ انداز میں قلعہ میں داخل ہوگئی۔ اہل دمشق نے دوسری جانب سیدنا ابو عبیدہ سے مصالحت کی درخواست کردی۔ جو انہوں نے نئی صورت حال سے لاعلمی کی بنا پر قبول کرلی۔ جب انہیں اصل صورت حال کا علم ہوا تو انہیں بہت محسوس ہوا مگر ایفائے عہد کی خاطر ابو عبیدہ نے مفتوحہ علاقہ اہل دمشق کو واپس دے دیا۔ (تاریخ اسلام حمید الدین ص ١٣٨) ٧۔ شام کی فتوحات کے دوران عیسائیوں نے صلح کے لیے اپنے قاصد جارج کو سیدنا ابو عبیدہ کے پاس بھیجا۔ وہ شام کے وقت پہنچا اور نماز باجماعت کا پرکیف منظر دیکھ کر بہت متاثر ہوا۔ بعد میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق چند سوال کیے جن کا سیدنا ابو عبیدہ نے شافی جواب دیا نتیجتاً جارج مسلمان ہوگیا اور چاہا کہ اب وہ عیسائیوں کے پاس واپس نہ جائے۔ لیکن ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے محض اس خیال سے کہ رومیوں کو مسلمانوں کی طرف سے بد عہدی کا گمان پیدا نہ ہو۔ جارج کو مجبور کیا اور کہا کہ کل یہاں سے جو سفیر جائے گا ایک دفعہ ضرور اس کے ہمراہ وہاں جاؤ اور اصل صورت حال سے انہیں خود مطلع کرنے کے بعد واپس آ جانا۔ (الفاروق ص ١٩٦) اب ذرا موجودہ دور کی مہذب اور متمدن اقوام اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کے معاہدات پر بھی نظر ڈال لیجئے۔ جو ظاہری معاہدات کے علاوہ زیر زمین خفیہ معاہدات کا بھی ایک جال بچھا رکھتے ہیں اور ایسی منافقت اور بدعہدی کا ایک خوبصورت نام ڈپلومیسی (DIPLOMACY) تجویز کر رکھا ہے اس منافقت کا جو منظر جنگ عظیم اول میں سامنے آیا وہ کچھ اس طرح ہے :۔ اس جنگ میں ایک طرف جرمنی، آسٹریا اور ہنگری تھے جنہیں جارح یا ظالم کا لقب دیا گیا۔ دوسری طرف برطانیہ، فرانس، روس اور اٹلی تھے جو اپنے آپ کو حق پرست، انسانی حقوق کے علمبردار اور مظلوموں کے مددگار کہتے تھے۔ ان حق پرستوں نے عربوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے انہیں یقین دلایا کہ وہ عربوں کو ترکی کے تسلط سے آزاد کرائیں گے اور جنگ کے بعد انہیں آزاد اور خود مختار حکومت بنانے کا موقع دیں گے تاکہ وہ اپنے شعائر اسلام آزادی سے بجا لا سکیں۔ اس طرح یہ حق پرست دراصل ملت اسلامیہ کے مرکز ترکی کی خلافت کا گلا گھونٹنا چاہتے تھے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں ١٩١٧ ء میں جنرل ماؤ نے برسر عام اعلان کر کے عربوں سے کیے ہوئے معاہدہ کی تصدیق بھی کردی کہ وہ اس ملک میں فاتحانہ حیثیت سے نہیں بلکہ آزادی دینے کے لیے آئے ہیں۔ لیکن اصل حقیقت اس کے علاوہ کچھ اور تھی۔ فرانس اور برطانیہ نے ١٩١٥ ء اور ١٩١٦ ء میں آپس میں خفیہ معاہدات کیے ١٩١٦ ء کے خفیہ معاہدہ، جو سائیکس پیکو کے نام سے مشہور ہے، کی رو سے یہ طے ہوا تھا کہ جنگ کے بعد :۔ i عراق کلیتہً برطانیہ کے قبضہ میں رہے گا۔ ii شام پورے کا پورا فرانسیسی سلطنت کے دائرہ میں رکھا جائے گا۔ iii فلسطین ایک بین الملی علاقہ ہوگا اور حیفہ اپنی بندرگاہ سمیت برطانیہ کے زیر اثر ہوگا۔ iv باقی رہے وہ ممالک جو عراق اور سواحل شام کے درمیان واقع ہیں تو انہیں دو حصوں میں تقسیم کیا جائے گا ایک حصہ برطانیہ کے زیر اثر رہے گا اور دوسرا فرانس کے۔ برطانیہ اور فرانس چونکہ اپنے دوسرے حق پرست ساتھیوں سے بھی زیادہ حق پرست تھے۔ اس لیے انہوں نے اس معاہدہ کو اپنے ساتھیوں سے بھی چھپائے رکھا اور ظاہری طور پر یہی اعلان کرتے رہے کہ ہم عربوں کو پوری آزادی دلانے آئے ہیں۔ پھر جب عربوں نے دیکھا کہ شام کے سواحل پر فرانسیسی فوجیں مسلط ہیں اور عراق اور فلسطین میں انگریزی فوجیں پہنچ گئی ہیں تب جا کر انہیں معلوم ہوا کہ انکے ساتھ دھوکا کیا گیا ہے اور یہ چال محض ترکوں اور عربوں میں نفاق ڈال کر ملک چھیننے کے لیے چلی گئی تھی۔ عربوں کو جب ہوش آیا تو انہوں نے بہتیرے ہاتھ پاؤں مارے اور فیصل بن حسین کے تحت ایک وطنی حکومت بھی قائم کرلی مگر اب پانی سر سے اوپر ہوچکا تھا۔ برطانیہ نے نہایت عیاری سے عربوں میں سے ہی اپنی مرضی کے چند آدمی منتخب کر کے ان کی حکومت بنا دی جو کلیتہً برطانیہ کے زیر اثر تھی۔ اس طرح انگریز بہادر نے اپنے سب مفادات بھی حاصل کرلیے اور یہ کہنے کے قابل بھی ہوگیا کہ اس نے عربوں سے اپنا وعدہ پورا کردیا ہے۔ پھر ان خفیہ معاہدات کا حلقہ صرف عربوں تک ہی محدود نہ تھا۔ اتحادی آپس میں بھی ہوا کا رخ دیکھ کر ایسے معاہدات کرلیتے تھے جنہیں دوسرے حق پرستوں سے بھی صیغہ راز میں رکھا جاتا تھا۔ بین الاقوامی ڈاکہ زنی کی یہ سکیم صیغہ راز میں ہی رہ جاتی۔ اگر دوران جنگ روس انقلاب کا شکار نہ ہوجاتا۔ اپریل ١٩١٧ ء میں جب ان کی حکومت کا تختہ الٹا اور بالشویکوں کی حکومت قائم ہوگئی تو انہوں نے سرمایہ دار حکومتوں کے گھناؤنے کردار کو بے نقاب کرنے کے لیے وہ تمام خفیہ معاہدات شائع کردیئے جو انہیں زار کی حکومت کے نہاں خانوں سے دستیاب ہوئے تھے۔ ان معاہدات کی کوئی دفعہ ایسی نہیں تھی جس میں مخالف سلطنتوں کے کسی نہ کسی علاقہ یا ان کی اقتصادی ثروت کے کسی نہ کسی وسیلے کو ان حق پرستوں نے آپس میں بانٹنے کا فیصلہ نہ کر رکھا ہو۔