فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
پھر حرمت والے مہینوں (١) کے گزرتے ہی مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو (٢) انہیں گرفتار کرو (٣) ان کا محاصرہ کرو اور ان کی تاک میں ہر گھاٹی میں جا بیٹھو (٤) ہاں اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز کے پابند ہوجائیں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں تو تم ان کی راہیں چھوڑ دو (٥) یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔
[٤] یہاں حرمت والے مہینوں سے مراد ١٠ ذی الحجہ ٩ ہجری سے لے کر ١٠ ربیع الثانی ١٠ ہجری تک چار ماہ کی مدت ہے جو مشرکوں کو سوچ بچار کے لیے دی گئی تھی۔ یہاں حرمت والے مہینوں سے مراد ذیقعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب نہیں ہیں جو دور جاہلیت میں بھی حرمت والے سمجھے جاتے تھے اور اسلام نے بھی ان کی حرمت کو بحال رکھا ہے۔ [٥] مشرکوں سے جنگ نہ کرنے کی شرائط :۔ درج ذیل حدیث اس کی مزید وضاحت کر رہی ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس وقت تک لوگوں سے جنگ کروں جب تک وہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی نہ دیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں۔ پھر جب وہ یہ کام کریں تو انہوں نے مجھ سے اپنی جانیں اور اپنے مال محفوظ کرلیے سوائے اسلام کے حق کے اور ان کا حساب اللہ کے ذمہ ہے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الایمان۔ باب فان، تابوا۔۔ مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب الامر بقتال الناس حتی۔۔) یعنی ان مشرکوں کو محض اسلام لانے کا اعلان یا توبہ کرنا ہی کافی نہیں بلکہ انہیں اپنے دعویٰ کو درست ثابت کرنے کے لیے نماز کا قیام اور زکوٰۃ کی ادائیگی بھی ضروری ہے۔ اور اگر کوئی مشرک ظاہری طور پر یہ تینوں شرائط پوری کر دے تو اس سے تعرض نہیں کیا جائے گا خواہ اس کی نیت میں فتور بدستور موجود ہو۔ اور اگر ایسی صورت ہو تو اللہ اس سے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ایسے لوگوں سے نمٹ لے گا۔ اس آیت سے یہ اصول مستنبط ہوتا ہے کہ کوئی مسلمان خواہ وہ موروثی مسلمان ہو یا نو مسلم ہو اگر وہ نماز قائم کرتا اور زکوٰۃ ادا کرتا ہے تو ایک اسلامی حکومت میں اسے حقوق شہریت مل سکتے ہیں اور اگر نہیں کرتا تو اسے مسلمانوں جیسے حقوق نہیں مل سکتے۔ مرتدین اور بالفعل زکوٰۃ نہ دینے والوں سے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا جہاد :۔ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اس اعلان کے بعد مشرکوں نے صرف تیسری راہ اختیار کی یعنی وہ اسلام لے آئے۔ البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پھر ایسے مشرکوں نے سر اٹھایا۔ کچھ تو سرے سے اسلام سے ہی مرتد ہوگئے اور کچھ ایسے تھے جنہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا تھا۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایسے لوگوں کے بارے میں جنگ کرنے سے متعلق مجلس شوریٰ طلب کی۔ اور ایسے نازک حالات میں ان مانعین زکوٰۃ کے خلاف جہاد کرنے کے متعلق مشورہ کیا۔ اس مجلس میں اکثر صحابہ نے حالات کی نزاکت کے پیش نظر ان سے فی الحال تعرض نہ کرنے کا مشورہ دیا اور بعض نے یہ کہا کہ آپ ایسے لوگوں سے کیسے جنگ کرسکتے ہیں جو کلمہ شہادت پڑھ کر اسلام میں داخل ہوچکے ہیں تو سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اسی آیت سے استدلال کر کے شوریٰ پر ثابت کردیا کہ اسلام کے دعویٰ کی صداقت کے لیے جیسے نماز کی ادائیگی شرط ہے ویسے ہی زکوٰۃ کی ادائیگی بھی شرط ہے چنانچہ شوریٰ کو اس بات کا قائل ہونا پڑا اور آپ نے ان مانعین زکوٰۃ سے کفار و مشرکین کی طرح جہاد کیا۔