سورة الانفال - آیت 70

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّمَن فِي أَيْدِيكُم مِّنَ الْأَسْرَىٰ إِن يَعْلَمِ اللَّهُ فِي قُلُوبِكُمْ خَيْرًا يُؤْتِكُمْ خَيْرًا مِّمَّا أُخِذَ مِنكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اے نبی! اپنے ہاتھ تلے کے قیدیوں سے کہہ دو کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں نیک نیتی دیکھے گا (١) تو جو کچھ تم سے لیا گیا ہے اس سے بہتر تمہیں دے گا (٢) اور پھر گناہ معاف فرمائے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٧٢] سیدنا عباس کا فدیہ، اسلام لانے کی وجہ اور آپ پر اللہ کی مہربانی :۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اپنا اور اپنے دونوں بھتیجوں کا فدیہ جمع کراؤ۔ انہوں نے کہا میرے پاس تو مال نہیں اور جنگ میں مجھ سے چوبیس اوقیہ چھین لیے گئے ہیں۔ یعنی زبردستی چندہ لیا گیا ہے وہی ہمارا فدیہ سمجھ لیجئے۔ ان کا خیال تھا کہ شاید مجھے کچھ دیئے بغیر ہی رشتہ داری کی بنا پر چھوڑ دیا جائے گا (آپ مالدار تھے لیکن طبعاً بخیل بھی تھے۔ کیونکہ سودی کاروبار کرتے تھے۔ چنانچہ جب سود حرام ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے عظیم اجتماع میں یہ اعلان فرمایا تھا کہ سب سے پہلے میں اپنے خاندان سے عباس بن عبدالمطلب کا سود کالعدم قرار دیتا ہوں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ اپنے چچا کی طبیعت سے واقف تھے۔ لہٰذا صحابہ سے کہہ دیا کہ انہیں فدیہ کے مال سے ایک پیسہ بھی نہ چھوڑنا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا سے مخاطب ہو کر فرمایا : تمہارا مال کہاں گیا جو تم نے اور ام الفضل نے مل کر گاڑا ہے؟ یہ ایسی بات تھی جس کا ان کے سوا کسی کو علم نہ تھا۔ جب سیدنا عباس نے یہ بات سنی تو کہنے لگے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور اسلام لے آئے۔ پھر اپنا، اپنے دونوں بھتیجوں اور اپنے حلیف عتبہ بن عمر کا فدیہ ادا کردیا۔ آپ کہا کرتے تھے کہ مجھ سے بیس اوقیہ بطور فدیہ لیا گیا۔ لیکن اس کے عوض اللہ نے دنیا میں مجھے بہت زیادہ مال دیا۔ اس وقت میرے پاس بیس غلام ہیں۔ جن کی کمائی سے مجھے بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے زمزم کی تولیت بھی مجھے عطا فرمائی۔ علاوہ ازیں میں اللہ سے مغفرت کی امید بھی رکھتا ہوں۔