ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَىٰ قَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ ۙ وَأَنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
یہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ کسی قوم پر کوئی نعمت انعام فرما کر پھر بدل دے جب تک کہ وہ خود اپنی اس حالت کو نہ بدل دیں جو کہ ان کی اپنی تھی (١) اور یہ کہ اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔
[٥٧] نیت کے فتور سے نعمت چھن جاتی ہے :۔ اس آیت کے الفاظ بڑے وسیع معنی رکھتے ہیں اور اس کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں مثلاً ایک یہ کہ ''ما '' کو کسی قوم کی خوشحالی پر محمول کیا جائے۔ اس صورت میں اس کے وہی معنی ہیں جو ترجمہ میں کئے گئے ہیں۔ البتہ مَا بِاَنْفُسِہِمْ کا معنی طرز عمل کے بجائے نیت کا فتور بھی ہوسکتا ہے۔ یعنی جب تک کوئی قوم اللہ تعالیٰ کی فرمانبردار بن کر رہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے وہ نعمت نہیں چھینتا، پھر جب ان لوگوں کی نیتوں میں فتور آ گیا یا بگاڑ پیدا ہوگیا۔ تو اللہ تعالیٰ کی نعمت بھی ان سے چھین لی جاتی ہے۔ اور اگر ''ما'' کو کسی قوم کی بدحالی اور مصائب پر محمول کیا جائے تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ جو قوم بدحالی اور مصائب کا شکار ہے۔ جب تک وہ خود اپنی اس پریشانی اور بدحالی کو بدلنے کی کوشش نہ کرے گی۔ اللہ بھی انہیں اسی حال میں رہنے دیتا ہے اور اس کی بدحالی کو دور نہیں کرتا جیسا کہ حالی نے کہا ہے خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی۔۔۔۔۔ نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا