وَإِذْ زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ وَقَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَإِنِّي جَارٌ لَّكُمْ ۖ فَلَمَّا تَرَاءَتِ الْفِئَتَانِ نَكَصَ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ وَقَالَ إِنِّي بَرِيءٌ مِّنكُمْ إِنِّي أَرَىٰ مَا لَا تَرَوْنَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ ۚ وَاللَّهُ شَدِيدُ الْعِقَابِ
جبکہ ان کے اعمال کو شیطان انہیں زینت دار دکھا رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ لوگوں سے کوئی بھی آج تم پر غالب نہیں آسکتا میں خود بھی تمہارا حمایتی ہوں لیکن جب دونوں جماعتیں نمودار ہوئیں تو اپنی ایڑیوں کے بل پیچھے ہٹ گیا اور کہنے لگا میں تم سے بری ہوں۔ میں وہ دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھ رہے (١) میں اللہ سے ڈرتا ہوں (٢) اور اللہ تعالیٰ سخت عذاب والا ہے (٣)۔
[٥٣] جنگ بدر میں سراقہ بن مالک کا موجود ہونا اور کافروں کی حوصلہ افزائی :۔ قریش اور بنو کنانہ کی آپس میں دشمنی تھی اور انہیں یہ خطرہ تھا کہ بنو کنانہ کہیں مسلمانوں کی حمایت کر کے ہمارے لیے خطرہ یا شکست کا باعث نہ بن جائیں۔ ان کے اس خدشہ کو مٹانے کے لیے شیطان خود بنو کنانہ کے رئیس سراقہ بن مالک کی شکل میں کافروں کے لشکر میں آ موجود ہوا اور ابو جہل سے کہنے لگا کہ ہماری طرف سے تم لوگ بالکل مطمئن رہو۔ اس معاملہ میں ہم لوگ تمہاری حمایت کریں گے اور مل کر مسلمانوں کا استیصال کریں گے۔ ویسے بھی تم لوگوں کی فتح یقینی ہے۔ تمہاری اتنی بڑی جمعیت کے سامنے ان تھوڑے سے مسلمانوں کی کیا حیثیت ہے۔ پھر جب میدان کار زار گرم ہوا اور اس نے مسلمانوں کی مدد کے لیے فرشتے اترتے دیکھ لیے اور یہ اندازہ کرلیا کہ اب مشرکین کی شکست یقینی ہے تو وہاں سے کھسکنے لگا۔ اس وقت ابو جہل نے کہا : عین مشکل کے وقت اب کہاں جاتے ہو؟ کہنے لگا جو کچھ مجھے نظر آ رہا ہے وہ تم نہیں دیکھ سکتے۔ یہ کہہ کر چلتا بنا۔ اس وقت بھی شیطان لعین نے اپنے ساتھیوں کو یہ نہ بتلایا کہ جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں اس کے مطابق تمہاری ہلاکت ہونے والی ہے۔ لہٰذا تم بروقت اس کا تدارک سوچ لو۔ بلکہ انہیں دغا دے کر واپس چلا گیا۔