سورة الانفال - آیت 17

فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ قَتَلَهُمْ ۚ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ رَمَىٰ ۚ وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلَاءً حَسَنًا ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

سو تم نے انہیں قتل نہیں کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو قتل کیا۔ (١) اور آپ نے خاک کی مٹھی نہیں پھینکی بلکہ اللہ تعالیٰ نے پھینکی (٢) تاکہ مسلمانوں کو اپنی طرف سے ان کی محنت کا خوب عوض دے (٣) بلاشبہ اللہ تعالیٰ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٦] ریت کی مٹھی کا کرشمہ :۔ میدان بدر میں اللہ کی مدد کی چوتھی صورت یہ تھی کہ جب جنگ پورے زوروں پر تھی اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریت اور کنکریوں کی ایک مٹھی لی اور اسے کافروں کے لشکر کی طرف پھینک دیا اور فرمایا شاھت الوجوہ اس ریت کے ذرات کافروں کی آنکھوں میں جا لگے جس سے وہ آنکھیں ملتے رہ گئے اور انہیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو موقع دیا۔ کہ وہ کافروں کو بےدریغ قتل کرسکیں۔ بعض عقل پرست حضرات کہتے ہیں کہ مٹھی پھینکنے کے وقت ہوا کا رخ چونکہ کافروں کی طرف تھا، اس لیے کافروں کو یہ حادثہ پیش آیا تھا۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ مٹھی بھر ریت کے ذرات آخر سب کافروں تک کیسے پہنچ گئے۔ پھر یہ ذرات آنکھوں میں ہی کیوں جا لگے۔ کسی اور جگہ بھی لگ سکتے تھے۔ آنکھ تو انتہائی مختصر حصہ جسم ہے۔ لازماً یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا فعل تھا۔ جس کا صدور اس کے نبی کے ہاتھوں معجزہ کے طور پر ہوا تھا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس فعل کی نسبت براہ راست اپنی طرف کی ہے۔